علامہ ضمیر اختر نقوی کا انتقال اور شاعری و خطابت کے سنہرے دور کا اختتام

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

علامہ ضمیر اختر نقوی کا انتقال اور شاعری و خطابت کے سنہرے دور کا اختتام
علامہ ضمیر اختر نقوی کا انتقال اور شاعری و خطابت کے سنہرے دور کا اختتام

کراچی میں معروف عالمِ دین علامہ ضمیر اختر نقوی آج حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث انتقال کر گئے جس سے شاعری و خطابت کے ایک سنہرے دور کا اختتام ہوگیا ہے۔

انسانی نفسیات کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص ہمارے درمیان زندہ ہوتا ہے، ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ اِس دارِ فانی سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کی خوبیاں واضح ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔

علامہ ضمیر اختر نقوی کو ایک مخصوص طبقے نے  سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور انہوں نے بارہا اِس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام تر تنقید کو اپنے دلی رنج کا باعث قرار دیا۔

آئیے علامہ ضمیر اختر نقوی کی زندگی کے مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کا وہ کون سا اصول ہے جو دوسرے مسلک کے ماننے والوں یا علماء پر ہر طرح کی تنقید کی کھلی چھوٹ دیتا ہے۔

ضمیر اختر نقوی کے حالاتِ زندگی

مشہور و معروف اسکالر علامہ ضمیر نقوی 24 مارچ 1944ء کو بھارتی شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے جو تقسیمِ ہند سے قبل برطانوی ہندوستان کہا جاسکتا ہے۔ آپ کے والد سیّد ظہیر حسن نقوی اور والدہ سیدہ محسنہ ظہیر نقوی تھیں۔

سن 1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا تو علامہ ضمیر اختر نقوی صرف 3 برس کے تھے۔آبائی شہر لکھنؤ سے ہی علامہ ضمیر ختر نقوی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن بھی شیعہ کالج لکھنؤ سے مکمل کی۔ سن 1967ء میں آپ پاکستان آ گئے اور رہائش کیلئے کراچی کا انتخاب کی جہاں دینی درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔

اہم تصانیف

ایک شیعہ عالمِ دین کی حیثیت سے مرثیہ نگاری سے علامہ ضمیر اختر نقوی کو بے حد دلچسپی تھی۔ آپ نے مرثیہ نگاری کی تاریخ اور اردو زبان کے مشہور مرثیہ نویس میر انیس ، مرزا دبیر اور جوش ملیح آبادی پر بھی کتابیں تحریر کی ہیں۔

اردو ادب پر واقعۂ کربلا کے اثرات، تذکرہ شعرائے لکھنؤ، اقبال کا فلسفۂ عشق اور شعرائے مصطفیٰ آباد آپ کی اہم کتب ہیں۔ نثر نگاری اور ادبی تنقید بھی علامہ ضمیر اختر نقوی کے اہم موضوعات رہے ہیں۔ آپ نے عمران سیریز کے ناول نگار ابنِ صفی کی ناول نگاری پر بھی ایک کتاب تحریر کی۔

دو جلدوں پر مشتمل نوادراتِ مرثیہ نگاری علامہ ضمیر اختر نقوی کی اہم کتب میں سے ایک ہے جبکہ مذہبی اعتبار سے آپ نے حضرت فاطمہ الزہراء، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ، حضرت عباس علمدارؑ اور دیگر اہم اسلامی شخصیات کی سوانحِ حیات بھی تحریر کی ہیں۔

ذکرِ اہلِ بیتِ اطہارؑ کی مجالس

اگر ہم علامہ ضمیر اختر نقوی کی دیگر کتب پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کی مجالس کو بھی کتب کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا جس میں عظمتِ صحابہ، امام اور امت، ظہورِ امام مہدی علیہ السلام، احسان اور ایمان، محسنینِ اسلام اور دیگر اہم مجالس شامل ہیں۔

اس کے علاوہ قاتلانِ حسین ؑ کا انجام، دس دن اور دس راتیں اور علم زندگی ہے نامی کتب بھی علامہ ضمیر اختر نقوی کی مجالس پر مشتمل ہیں جن میں اہلِ بیتِ اطہارؑ کا ذکر کیا گیا ہے۔ 

بیانات،سخت تنقید اور کارٹون 

سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ علامہ ضمیر اخترنقوی پر تنقید کوئی جرم نہیں کیونکہ تنقید تو کسی پر بھی کی جاسکتی ہے لیکن جب یہ تنقید کارٹون بنانے اور آوازے کسنے یا ہتکِ عزت تک جا پہنچی تو پھر بات سمجھ سے بالاتر ہو گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ علامہ ضمیر اختر نقوی پر صرف دیگر مسالک کے لوگ ہی نہیں بلکہ خود شیعہ مسلک کے عوام نے بھی کھل کر تنقید کی۔اگر تنقید تعمیری ہو تو اس پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں ہوتی لیکن علامہ صاحب کے کیس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ 

یہاں علامہ ضمیر اختر نقوی کے بیانات کا ذکر بھی ضروری ہے جو متنازعہ قرار دئیے گئے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ دعویٰ کہ کورونا وائرس کی دوا ان کے پاس موجود ہے یا پھر کوئی گوری حاملہ عورت اگر کسی حبشی کی تصویر مسلسل دیکھتی رہے تو بچہ کالا بھی پیدا ہوسکتا ہے۔

بے شک یہ متنازعہ بیانات تنقید کے قابل سہی، لیکن جو ردِ عمل سامنے آیا وہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔ لوگوں نے علامہ ضمیر اختر نقوی کے عالمِ دین ہونے کا کوئی لحاظ نہیں کیا اور ان کے کارٹون تک بنا ڈالے۔ تنقید کے الفاظ اتنے سخت تھے کہ علامہ ضمیر اختر نقوی کو اِس پر کھل کر دکھ کا اظہار کرنا پڑا۔ 

مذاق اڑانے والوں کو ردِ عمل

مرحوم علامہ ضمیر اختر نقوی نے رواں برس مارچ کے دوران مذاق اڑانے والے عناصر کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا جس کسی نے ان پر کوئی پھبتی کسی یا ناشائستہ جملے کہے، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔

مذاق اڑانے والوں کو تنبیہہ کرتے ہوئے علامہ ضمیر اختر نقوی نے کہا کہ امریکا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی یہ قانون ہے کہ اگر کسی کا کارٹون یا میم بنایا جائے یا گالی دی جائے تو اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔

معترضین کو سمجھاتے ہوئے معروف اسکالر کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص کی شکایت پر مذاق اڑانے والے یا میم بنانے والے کو 15 سال کی جیل کی سزا دی جاسکتی ہے۔ 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ 

قابلِ غور باتیں

مذاق اڑانے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں جن میں سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ لوگوں کو ہنسانے کیلئے کسی کی دلآزاری نہ کی جائے۔ علامہ ضمیر اختر نقوی کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی دلآزاری کی گئی اور انہیں ہتک آمیز مذاق کا نشانہ  اور کارٹونز بنا کر شدید تکلیف پہنچائی گئی۔

دینِ اسلام تو ہمیں اہلِ کتاب اور کافروں تک سے مذہبی رواداری کے ساتھ  بات چیت کا درس دیتا ہے جس میں کسی بھی قسم کی تحقیر نہیں ہوتی۔ اسلام ہمیں سمجھاتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے کسی خدا کو برا نہیں کہیں کیونکہ جواباً آپ کے خدا یعنی اللہ تعالیٰ کو برا کہا جائے گا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔

لہٰذا اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے کسی بھی مسلک میں شخصیت کو مسخ کرنے کی حد تک تنقید کی اجازت نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے مسلک اور عقیدے کو درست اور دوسرے کو غلط بلکہ کفر بھی سمجھتے ہیں تب بھی اسے دوسروں پر مسلط کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔

لمحۂ فکریہ اور اظہارِ افسوس 

اسکالر کے طور پر علامہ ضمیر اختر نقوی کی وفات وطنِ عزیز کیلئے کسی سانحے سے کم نہیں ہے کیونکہ آج ان کی وفات کے موقعے پر وہ سوشل میڈیا بھی غمزدہ نظر آتا ہے جہاں کبھی انہیں ہدفِ تنقید بنایا جاتا تھا۔

یہ بے جا تنقید کرنے والوں کیلئے ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہے جس پر ملک کی معروف سیاسی و سماجی شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ افسوس کہ علامہ ضمیر اختر نقوی آج ہم میں موجود نہیں رہے۔ ان کی وفات سے شعروشاعری، تحقیق اور ذکرِ اہلِ بیت کا ایک اہم باب اختتام پذیر ہوا۔ 

Related Posts