فرانس کے بعد برطانیہ پر بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے اندرونی دباؤ بڑھنے لگا

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
برطانوی پارلیمنٹ
فوٹو العربیہ

فرانس کے جرات مندانہ اعلان کے بعد برطانوی حکومت پر بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے اندرونی دباؤ میں اضافہ ہونے لگا ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ کے 220 سے زائد ارکان نے، جن میں درجنوں کا تعلق حکمران لیبر پارٹی سے ہے، جمعے کے روز حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کو بطورِ ریاست باقاعدہ طور پر تسلیم کرے۔ اس مطالبے سے وزیرِاعظم کیئر سٹارمر پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

یہ مطالبہ نو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کے دستخط شدہ ایک خط کے ذریعے سامنے آیا۔ یہ خط فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں کے اس اعلان کے ایک دن بعد جاری کیا گیا کہ فرانس رواں سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو با ضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔

اگر ایسا ہوا تو فرانس، جی سیون (G7) ممالک میں پہلا ملک اور اب تک کی سب سے طاقت ور یورپی ریاست ہو گا جو یہ قدم اٹھائے گا… اس پر اسرائیل اور امریکا دونوں نے مذمت کی ہے۔

غزہ میں جاری جنگ اور محصور علاقے میں ممکنہ اجتماعی قحط کے خدشات کے باعث کیئر سٹارمر کو اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر فلسطین کو تسلیم کرنے کے مطالبے پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔

خط میں 221 برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ نے لکھا ہے کہ “ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آئندہ ہفتے کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو با ضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے”۔ اس سے مراد 28 اور 29 جولائی کو نیویارک میں ہونے والا وہ اقوامِ متحدہ کا اجلاس ہے، جس کی مشترکہ صدارت فرانس اور سعودی عرب کر رہے ہیں۔

اراکین نے کہا ہے کہ “اگرچہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ برطانیہ اکیلا فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں بنا سکتا، لیکن برطانیہ کا با ضابطہ اعتراف ایک اہم علامتی قدم ہو گا”۔

خط پر دستخط کرنے والوں میں اعتدال پسند دائیں بازو کی کنزرویٹو پارٹی، مرکز کی لبرل ڈیموکریٹس اور اسکاٹ لینڈ و ویلز کی علاقائی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ انھوں نے برطانیہ کی تاریخی ذمے داریوں اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کی رکنیت کا بھی حوالہ دیا۔

خط میں برطانیہ کے 1917 کے بالفور اعلامیے کا بھی ذکر کیا گیا جس نے اسرائیل کے قیام میں بنیاد فراہم کی تھی۔

اراکین نے مزید لکھا “1980 سے ہم دو ریاستی حل کی حمایت کرتے آئے ہیں، اور فلسطین کو تسلیم کرنا اسی موقف کو تقویت دے گا۔ یہ قدم فلسطینی عوام کے حوالے سے ہماری تاریخی ذمے داری کو نبھانے کے مترادف ہو گا”۔

ادھر جمعے کو غزہ کی صورت حال پر فرانسیسی اور جرمن رہنماؤں کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کے بعد جاری بیان میں برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے کہا کہ وہ “خطے میں امن کا راستہ نکالنے پر کام کر رہے ہیں”۔

سٹارمر نے مزید کہا “فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ان اقدامات میں شامل ہونا چاہیے جو امن کی طرف لے جائیں، اس بارے میں کوئی ابہام نہیں لیکن یہ اقدام ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے”۔

Related Posts