فلسطین کی بڑھتی قبولیت اور اس کے فوائد

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

acceptance of Palestine

فلسطین گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود دنیا کا سب سے سلگتا ہوا مسئلہ بنا ہواہے، اسرائیل کے ظالمانہ قبضے کے خاتمے کی خواہش میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی آزادی کا خواب لئے منوں مٹی تلے سو چکے ہیں لیکن اقوام عالم اسرائیلی فتنے کو لگام ڈالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

غزہ میں گزشتہ سال 7اکتوبر سے جاری جنگ میں 36ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، غزہ کا بیشتر علاقہ کھنڈر بن چکا ہے اور اب جنگی جنون میں مبتلا اسرائیل نے رفح پر چڑھائی کردی ہے۔

طاقت کے نشے میں بدمست اسرائیل اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور او آئی سی کے ضابطوں کو پیروں تلے روندتا جارہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر 1948ء کی دہشت گردی کو دہرارہا ہے جب 528 گاؤں مسمار کرکے 8 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی میں دھکیل دیا تھا۔ گزشتہ سال اکتوبر سے جاری بربریت اور 36 ہزار جانیں لینے کے بعد بھی اسرائیل کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے اور لہو کی پیاس بڑھتی جارہا ہے۔

عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے)نے واضح طور پر اسرائیل کو رفح پر حملے روکنے کا حکم دیا ہے ، عالمی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 6 اور 7 موجود ہیں۔ چیپٹر 6 کے تحت فیصلے پر عمل نہ کرنے والے ملک پر پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں اور باب 7 کے تحت اقوام متحدہ کے امن دستوں کو تعینات بھی کیا جاسکتا ہے۔

اسرائیلی حملے روکنے کے حوالے سے عالمی عدالت کے فیصلے کے علاوہ قانون بھی موجود ہے تاہم اسرائیل امریکا کی سپورٹ کی وجہ سے ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس کی اصل وجہ قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔

اگر ہم فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کی بات کریں تو اقوام متحدہ میں 140 ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں ، امریکا، برطانیہ اور چند دیگر ممالک نے اسے باضابطہ تسلیم نہیں کیا۔فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے والوں میں 22 ممالک پر مشتمل عرب لیگ، 57 ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم اور 120 ممالک پر مشتمل نان الائنڈ موومنٹ بھی شامل ہے۔

آئرلینڈ، ناروے اور اسپین فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کررہے ہیں اور حالیہ دنوں میں آسٹریلیا نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کے دو ریاستی حل کے عمل کو تیز کرنے کے لیے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر سکتا ہے۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات 1990 کی دہائی میں شروع ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں اس مسئلے کا دو ریاستی حل تجویز کیا گیا تھا۔

غزہ میں تباہی کے بعد اسرائیل کے رفح میں مظالم بڑھتے جارہے ہیں لیکن افسوس کہ اسلامی ممالک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ او آئی سی ممالک کو شائد یہ خدشہ ہے کہ بڑی قوتیں ان سے ناراض ہوگئیں تو ان کا کیا ہوگا، یہی وجہ ہےکہ اسرائیل 36 ہزار سے زائد جانوں کی بھینٹ لے کر بھی ڈھٹائی سے دفاع کا راگ الاپ رہا ہے تاہم یورپی ممالک کی طرف سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کے بعد اسرائیل کی مذمت اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت بڑھنے کا امکان ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے 143 ممالک نے فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی حیثیت ایک غیر رُکنی مشاہدہ کار کی رہی ہے۔

آج سے کم و بیش 13 سال قبل 2011 میں فلسطین نے اقوامِ متحدہ کا مستقل رُکن بننے کے لیے قرار داد جمع کروائی تھی لیکن ان کی اس درخواست کو سلامتی کونسل میں حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ 2012 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو بطور ’غیر رکنی مشاہدہ کار ریاست‘ قبول کیا تھا تاہم اسرائیل اور امریکا اقوام متحدہ کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔

اب بات کریں فلسطین کو تسلیم کرنے کی تو اگر کوئی ملک فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرتا ہے تو امریکا اس کا گھیرا تنگ کردیتا ہے اور حال ہی میں فلسطین کی حمایت کرنے والے ممالک کے اداروں کی فنڈنگ بھی روکی جارہی ہے۔

سلامتی کونسل سے ہٹ کر دنیا کے کئی ممالک نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا ہے مگر اس کی حیثیت علامتی ہے کیونکہ جب تک اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرار داد کے مطابق فلسطین کو دنیا کا 194 واں ملک تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک فلسطین کو مکمل حقوق نہیں مل سکتے اگر ایسا ممکن ہوجائے تو اقوامِ متحدہ کا مستقل رُکن بننے کی صورت میں فلسطینیوں کی سفارتی طاقت بڑھ جائے گی اور وہ وہاں قرادادیں پیش کرنے اور ان پر ووٹ دینے کے بھی قابل ہوجائیں گے۔

دنیا کے 140 ممالک نے تو پہلے سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا ہوا ہے اور اگر اسلامی ممالک ہمت کرکے فلسطین کے ساتھ دفاعی معاہدوں کیلئے رضا مند ہوجائیں تو فلسطین کی مدد اور دفاع کیلئے فوجیں بھی بھجوائی جاسکتی ہیں۔

Related Posts