معاشی تنگی کے خوف سے ابارشن کروانا اسلامی تہذیب سے ہم آہنگ نہیں

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بعض اوقات منع حمل کی تدابیر(Contraceptive Measures) اختیار کرنے کی وجہ چھوٹے خاندان کا تصور (Concept) ہوتا ہے۔

شادی کے بعد اکثر میاں بیوی اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اولاد کم سے کم ہو، تاکہ ان کی زندگی کا آرام اور Comfortabilities تاثر نہ ہوں، حالانکہ شریعت میں بڑےخاندان کا تصور نہ صرف پسند کیا گیا ہے، بلکہ باقاعدہ اس کی ترغیب دی گئی ہے۔
چنانچہ آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ۔
(سننِ أبی داؤد، رقم الحدیث:2050)
ترجمہ: تم لوگ ایسی عورت سے شادی کرو جو شوہر سےزیادہ محبت کرنے والی ہو، اورخوب بچے جننے والی ہو؛ کیوں کہ (کل بروزِقیامت) میں دیگر امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت کے سبب فخر کروں گا۔
اسی طرح بعض اوقات رزق کی تنگی کے خوف سے منع حمل کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں کہ اگر اولاد زیادہ ہوئی تو ان کو کہاں سے کھلائیں گے؟ ان کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟

یہ تصور درحقیقت اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے پر کامل یقین نہ ہونے کا نتیجہ ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان، بلکہ ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری لے رکھی ہے، قرآن ِ کریم میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رازق ہونے کا یقین دلایا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
“ولَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ….الخ”
(الإسراء: الآیة:31)
ترجمہ:اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے، اور تمہیں بھی۔
لہٰذا مذکورہ مقاصد کے پیشِ نظر منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا، اسلامی مزاج کے سراسر خلاف اور ناپسندیدہ ہے۔

نکاح کرنا حضور ﷺ کی سنت مبارکہ ہے، اور اس کااصل مقصد یہ ہے کہ نسلِ انسانی کو فروغ ملے اور جائز طریقے سے نسلِ انسانی پروان چڑھے۔ اسی لیے نکاح پر اجروثواب رکھاگیاہے اور اس عورت کو بہتر قرار دیا گیا ہے جس کی اولاد کثیر ہو۔

لیکن بدقسمتی سے ہم نے آج مغرب کی دیکھا دیکھی دو بچوں کو کافی سمجھ لیا ہے اور منصوبہ بندی پر ملک کا لاکھوں روپیہ ضائع کر رہے ہیں، اور بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہاگر بچے زیادہ ہوں گے تو مسائل زیادہ ہوجائیں گے، وسائل کیسے پورے کیے جائیں گے اور ان کی خوراک کا بندوبست کہاں سے کریں گے۔ ایسی سوچ رکھنے والوں کواللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرامین ذہن میں رکھنے چاہییں۔

قرآنِ کریم اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَكَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ ۖؗ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (العنکبوت:60)

”اور کتنے ہی زمین میں چلنے والے ایسے ہیں کہ جو اپنی روز ی (اپنے ساتھ) نہیں رکھتے ہیں۔اللہ ہی ان کو بھی روزی دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ “

اسی کے مثل ایک اور مقام پر ارشاد ہوتاہے :

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰهِ رِزْقُهَا (سورة الھود:6)

”زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق(کا ذمہ) اللہ پر ہے، لہذا معاشی تنگی کے باعث اسقاط حمل درست نہیں ہے۔ “

Related Posts