ایران کے دو مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے ہولناک واقعات نے ملک کی داخلی سلامتی پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں۔ شمال مشرقی شہر زاہدان میں واقع عدالتی کمپاؤنڈ پر مسلح افراد کے حملے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ ہلاکتوں کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ حملہ اچانک نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا، جس میں حملہ آور عدالت کی عمارت میں داخل ہو کر خاص طور پر ججوں کے کمروں کو نشانہ بناتے رہے۔ فائرنگ کی گونج سے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا جبکہ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ حکام نے اگرچہ تاحال ہلاکتوں یا زخمیوں کی صحیح تعداد ظاہر نہیں کی، لیکن واقعے کو شدید نقصان دہ قرار دیا ہے۔
اسی دوران ایران کے مغربی صوبے مغربی آذربائیجان کے شہر سردشت کے نواحی گاؤں اغلان میں بھی ایک سنگین واقعہ پیش آیا، جہاں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا گیا۔ مہر نیوز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ایک اہلکار شہید جبکہ دوسرا زخمی ہوا۔
پاسدارانِ انقلاب کے ترجمان کرنل شاکر نے بتایا کہ دہشت گردوں نے اچانک حملہ کیا اور اندھا دھند گولیاں برسائیں۔ ابتدائی تفتیش میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس حملے میں کرد علیحدگی پسند گروہ ملوث ہو سکتا ہے، جو اس علاقے میں ماضی میں بھی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔
ان دونوں حملوں نے ایران کے سیکیورٹی نظام پر شدید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عوامی حلقوں میں بے چینی اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، اور سیکیورٹی اداروں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ نہ صرف ان واقعات کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں بلکہ آئندہ ایسے کسی واقعے کی روک تھام کے لیے سخت اور موثر اقدامات کریں۔
حکام نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور ملک بھر میں سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ حملے اس بات کی علامت ہیں کہ دہشت گرد عناصر اب ملک کے حساس اداروں اور عدالتوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
ایران کے لیے یہ وقت آزمائش کا ہے، جب اندرونی امن و امان کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط اور فوری حکمت عملی ناگزیر ہو چکی ہے۔