پنجاب حکومت نے ایک اور قومی ادارے کو سیاسی رنگ میں رنگ دیا۔ لاہور میں واقع “جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی” اب وزیراعلیٰ پنجاب کے نام پر “مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیزز” کہلائے گا۔ ایک ایسا قدم جو نہ صرف عوامی شعور کی توہین ہے بلکہ اداروں کی خودمختاری کے دعووں پر بھی کھلا تضاد ہے۔
کیا دل کے مریضوں کو سیاسی عقیدت سے شفا ملے گی؟ کیا اسپتال کی کارکردگی، وسائل، ڈاکٹرز کی تربیت یا سہولیات بہتر ہوئی ہیں کہ اسے ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کیا جائے؟ یا پھر یہ صرف نئے پاکستان میں پرانے سیاسی کلچر کی تازہ قسط ہے؟
وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کے مطابق یہ تبدیلی “خودمختاری” کی علامت ہے۔ کیا یہ وہی خودمختاری ہے جو صرف سیاسی نام کی تختی بدلنے سے آتی ہے؟ اگر اداروں کو واقعی خودمختار بنانا مقصد ہوتا، تو سہولیات، بجٹ، میرٹ، اور طبی خدمات پر بات ہوتی، نہ کہ شخصیت پرستی پر۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب ادارے کو ہٹا کر ایک برسرِ اقتدار شخصیت کے خاندان کا نام چسپاں کرنا نہ صرف غیر جمہوری روایت ہے بلکہ پاکستان کی فکری و ادارہ جاتی بنیادوں پر بھی حملہ ہے۔
یہی اسپتال چند سال پہلے ایک ٹراما سینٹر بننے جا رہا تھا، پھر تبدیل ہو کر کارڈیالوجی سینٹر میں ڈھلا، اور اب ایک سیاسی تختی کا نمونہ بنا دیا گیا ہے۔
ملک میں صحت کا نظام تباہ، ادویات کی قلت، سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز کی ہڑتالیں، مگر حکومت کو سب سے زیادہ فکر تختی کے نام کی ہے۔
اگر یہی روایت رہی تو شاید کل کو اسکول، لائبریریاں، سڑکیں، اور نالے بھی سیاسی وراثت کے نام پر گروی رکھ دیے جائیں گے۔