فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ معاہدے کی توسیع کے لیے اسرائیلی شرائط ماننے سے انکار کیا تو اسرائیل نے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل پر پابندی عائد کردی۔
اسرائیلی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز کو اپناتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کو رمضان اور یہودی تہوار پاس اوور کے دوران توسیع دینے پر اتفاق کیا، یہ اعلان وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اتوار کی صبح جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی مدت ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد کیا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ہفتے کو ختم ہو گیا تھا، جس میں بڑے پیمانے پر امداد فراہم کی گئی تھی۔
نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق وٹکوف کی تجویز کے تحت غزہ میں قید باقی یرغمالیوں میں سے نصف کو رہا کیا جائے گا، چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ۔ بقیہ یرغمالیوں کی رہائی مستقل جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ہوگی۔
عرب نیوز کے مطابق اسرائیل کے وزیر اعظم کے دفتر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا، لیکن انھوں نے حماس کو خبردار کیا کہ اگر وہ جنگ بندی میں توسیع پر راضی نہیں ہوئے، جیسا کہ امریکا نے تجویز پیش کی، تو جنگ بندی روک دی جائے گی۔
عرب نیوز کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اسرائیل نے مکمل طور پر غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل پر پابندی عائد کردی ہے یا نہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے یرغمالیوں کی رہائی مرضی کے مطابق نہ ہوئی تو مزید جنگ بندی نہیں ہوگی۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل جنگ بندی میں توسیع کا نیا منصوبہ تجویز کر کے غزہ کی پٹی میں امن کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حماس نے اسرائیل کی طرف سے اتوار کو غزہ کو امداد بھیجنے کو روکنے کے فیصلے کو بلیک میلنگ، جنگی جرم اور اپنے جنگ بندی معاہدے پر واضح حملہ قرار دیا۔
حماس نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے میں آگے بڑھے جس پر انہوں نے جنوری میں دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کا مقصد غزہ کے علاقے میں دیرپا امن قائم کرنا ہے۔ غزہ کے لوگوں کو خدشہ ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں کی باقیات کے حصے میں رمضان کے روزے رکھنے کے ساتھ ہی جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔