400 درندے؟ لاہور میں کیا ہوا اور کیوں ہوا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

400 درندے؟ لاہور میں کیا ہوا اور کیوں ہوا؟
400 درندے؟ لاہور میں کیا ہوا اور کیوں ہوا؟

یوم آزادی کے موقع پر لاہور میں ایک ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اتنا آفسوسناک، اتنا خطرناک، اتنا بھیانک ہے کہ سمجھ نہیں آتی اس پر کیا کہا اور لکھا جائے۔ اس درندگی کی انتہا کو صرف جنسی ہراسانی نہیں بلکہ جنسی دہشت گردی قرار دینا چاہیے۔ ایک ایسا واقعہ جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ پارک میں سیکڑوں لوگوں کے سامنے ایک لڑکی کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کے ساتھ دست درازی کی گئی۔ اسے ہوا میں اچھالا گیا۔ ایف آئی آر اور متاثرہ لڑکی کے بیان کے مطابق اس کے کپڑے تک پھٹ گئے تھے۔ فرض کیجیے کچھ دیر کے لیے یہ بھی مان لیا جائے کہ مبینہ کہانی کا کچھ حصہ فقط زیب داستاں کے لیے بڑھایا گیا اور 400 افراد نہ تھے بھلے نہ ہوں 4 افراد بھی اس درندگی کا مظاہرہ کرتے تو کیا جرم کی سنگینی کم ہو جاتی؟ یہاں تو پورے ہجوم نے حماقت کی۔ اس کے علاوہ بھی جو تفصیلات ہیں پوری نہ سہی ادھوری بھی سچ ہیں تو بہت افسوسناک ہیں۔

اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے از حد ضروری ہے کہ اس واقعہ میں ملوث عناصر کو صحیح معنوں میں نشان عبرت بنانا چاہیے۔ اس سانحے کے ذمہ داروں کو تصاویر اور ویڈیو ز کی مدد سے پہچان کر ان کا وہ حشر کرنا چاہیے کہ دوبارہ کبھی کسی کو ایسی جرات نہ ہو لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ہمارے ہاں کوئی حادثہ ہوتا ہے۔ کوئی سانحہ ہوتاہے۔ تو وقتی طور پر تو اس پر آواز بھی اٹھتی ہے۔ ماحول بنتا ہے۔ ٹرینڈز چلتے ہیں۔ بیان بازی ہوتی ہے۔ مجرموں کو نشان عبرت بنانے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ سب بھول جاتے ہیں۔ کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ کوئی سزا نہیں ملتی۔ کوئی ایکشن نہیں ہوتا اور پھر نیا واقعہ ہوجاتا ہے۔ لاہور واقعہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ خطرے کی گھنٹی ہے۔ معاشرے میں پیدا ہونے والی جنسی انار کی ایک جھلک ہے اسے یہیں روکنا چاہیے۔ اس کے سامنے بند باندھنا چاہیے اور اس کے لیے سب سے پہلے اور سب سے اہم کام شرعی سزاؤں کا نفاذ ہے۔ موٹروے کا واقعہ ہو یا نور مقدم کا قتل۔ قصور کیس ہو یا لاہور واقعہ ہر کسی حتی کہ لبرلز کی زبان پر بھی سرعام سزاؤں اور نشان عبرت بنانے کے جو مطالبات ہوتے ہیں یہیں وہ فطرت ہے جسے شریعت کے طور پرصدیوں پہلے انسانوں کو دے دیا گیاتھا یہی جرائم کی روک تھام اور درندگی کو روکنے کا واحد طریقہ ہے۔

ایسے کسی سانحے کے موقع پر کوئی اور بات کرنا مناسب نہیں لگتا  لیکن اگر مکمل بات نہ کی جائے تو ناانصافی ہوگی۔ لاہور میں یہ واقعہ ایک ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ پیش آیا اسی پارک میں اسی وقت ہزاروں خواتین موجود ہوں گی اور ہر جگہ،ہر مقام پر خواتین کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے لیکن دیگر خواتین اور بچیوں کے ساتھ اگر اس قسم کے واقعات پیش نہیں آتے تو بہرحال یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ایسا صرف ٹک ٹاکرز،دعوت گناہ دیتی یا غیر مناسب لباس میں ہونے والی لڑکیوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے؟-

 ٹک ٹاک،کیمرے اورخود نمائی کی لت نے ہمارے بچے اور بچیوں کو کھلونا اور تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ٹک ٹاکرز جو حرکتیں کرتے ہیں اور انٹرنیٹ کی دنیا میں جو اندھیر نگری ہے اس کا بھی نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور یہ نوٹس نہ صرف حکومت بلکہ ایسی نادان بچیوں کے والدین اورمعاشرے کے تما م باثر طبقات بالخصوص علماء کرام کو لینا چاہیے اور لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ ہمارے ہاں بے حیائی کی آگ کا الاؤ جتنا تیز ہوتا جارہا ہے۔ جنسی انارکی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے اسے روکنے کا کوئ تو بندوبست ہونا چاہیے ورنہ یہ آگ ہر کسی کے دامن تک آ پہنچے گی۔

صرف ٹک ٹاک،سنیپ اور اس قسم کی دیگر واہیات ایپس کا مسئلہ نہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جلسوں بلکہ بعض جگہوں پر تعلیمی اداروں میں، تعلیمی اداروں کے ٹورز کے نام پر اور دیگر کئی حوالوں سے جس قسم کا کلچر متعارف کروایا جا رہا ہے وہ افسوسناک اور قابل غور ہے اور ستم بالائے ستم ٹی وی نشریات اور انٹرنیٹ پر موج صد مواد ہے-

وزیراعظم پاکستان نے کچھ عرصہ قبل اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے لباس اور اسباب پر جو بات کی اور لبرلز کی طرف سے اس کا مذاق اڑایا گیا حقیقت پسند ی کا تقاضہ یہ ہے ان اسباب و وجوہات کی روک تھام کی جائے جن کے نتیجے میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں-

لاہور واقعہ پر نوجوانوں کی ایک مجلس میں بات چلی تو مجلس میں موجود نوجوانوں نے ایسی ایسی ہوش ربا باتیں بتائیں کہ الامان والحفیظ

 ایک نوجوان کہنے لگا کہ کچھ عرصہ سے یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ انتہائی بیہودہ لباس میں کوئی لڑکی مائیک اور کیمرہ لے کر کسی بھی پارک میں جاپہنچتی ہے خود کو صحافی اور ٹک ٹاکر یا یوٹیوبر کے طور پر پیش کرکے شرفاء اور راہ چلتے لوگوں سے ایسے ایسے ذومعنی، قابل اعتراض اور حیران کن سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ نہ پوچھیے۔

ایک نوجوان کہنے لگا کہ آج کل “پرینک” اور مذاق کے نام پر ہمارے پارک اور سیرگاہوں میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا سواں حصہ بھی علماء اور شریف والدین کو معلوم ہوجائے تو کانوں کو ہاتھ لگا دیں اور بھی اس طرح کے ”انکشافات“سامنے آئے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسے پہلو ایسی باتیں ہیں جن پر شاید بات بھی نہیں ہوسکتی لیکن بہرحال یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ لمحہ فکریہ ہے اور آنکھیں بند کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔

 لاہور واقعہ محض ایک واقعہ یا سانحہ نہیں بلکہ زوال و انحطاط کا الارم اور سب کے لیے بالخصوص بچیوں والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ہمیں دھوکے، غفلت اور اندھیرے سے نکل آنا چاہیے۔ فوری انصاف شرعی سزاؤں اور ان اسباب ومحرکات کے خاتمے کا بندوبست کرنا چاہیے جو اس قسم کے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : مینار پاکستان پر لوگوں نے گھنٹوں ہراساں کیا،کپڑے تار تار کیے اور لوٹ مار کی، ٹک ٹاکر عائشہ اکرم

Related Posts