یارن درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس، جننگ انڈسٹری میں شدید مایوسی

مقبول خبریں

کالمز

The Israel-U.S. nexus for State Terrorism
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا
zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

(فوٹو؛ فائل)

عیدالاضحیٰ کے بعد کئی جننگ فیکٹریاں جزوی طور پر دوبارہ کھل گئی ہیں، پھٹی کی رسد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجٹ میں صرف یارن کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگا، جبکہ جنرز کی توقعات کے برخلاف دیگر ٹیکسز میں کوئی کمی نہیں کی گئی، جس پر جننگ انڈسٹری میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ اس کا منفی اثر کپاس کی مارکیٹ اور کاشتکاروں پر بھی پڑ رہا ہے۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں سوت کے دام کم ہوئے، نیو یارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ 65.30 تا 69.06 سینٹ فی پاؤنڈ رہا۔ USDA کی رپورٹ کے مطابق ویتنام، انڈیا اور پاکستان سب سے بڑے خریدار رہے۔

کپاس کی پیداوار کم ہونے اور درآمدی معاہدوں کی وجہ سے مقامی روئی کی طلب متاثر ہو رہی ہے، جس سے قیمتیں گر رہی ہیں۔ وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی مراعات نہ ملنے سے صنعت میں مشکلات بڑھ گئی ہیں، اور کئی جننگ یونٹس بند ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی تحقیق اور پالیسی سازی میں بہتری نہ آئی تو کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کا خطرہ ہے، جس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کسانوں اور جننگ انڈسٹری کی بہتری کے لیے فوری اصلاحات ضروری ہیں۔

فی من روئی کی قیمت میں 500 روپے کی کمی، اسپاٹ ریٹ 16,200 روپے فی من پر بند ہوا۔ پھٹی کی قیمت 7,800 تا 8,800 روپے فی 40 کلو برقرار رہی۔

سندھ و پنجاب میں جننگ فیکٹریاں جزوی طور پر شروع ہو گئی ہیں۔ فی الحال 8,000 تا 10,000 گانٹھوں کی پھٹی جننگ فیکٹریوں میں پہنچ چکی ہے۔

حکومت نے جننگ فیکٹریوں کے لیے کوئی مراعات نہیں دیں، صرف یارن کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا ہے۔

جنرز فورم اور پی سی جی اے نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے کاشتکاروں اور جننگ انڈسٹری کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔

ملوں کے بڑے گروپوں نے روئی کے درآمدی معاہدے کر لیے ہیں، جس سے مقامی روئی کی خریداری کم ہو سکتی ہے۔

مقامی روئی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کی وجہ سے پھٹی کے دام بھی کم ہو سکتے ہیں۔ نیو یارک کاٹن کا وعدے کا بھاؤ فی پاؤنڈ 65.30 تا 69.06 امریکی سینٹ پر بند ہوا۔

امریکہ کی برآمدات 60,200 گانٹھیں رہیں، جس میں ویتنام 28,000 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔ پاکستان نے 6,600 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔

مقامی روئی اور اس سے حاصل ہونے والے بائی پروڈکٹس پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کا نفاذ جننگ انڈسٹری پر اضافی بوجھ ہے۔

زرعی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے کسان روایتی طریقوں سے کاشتکاری پر مجبور ہیں۔

زرعی ترقی کے لیے مربوط پالیسی اور زرعی تحقیق کی مالی معاونت ناگزیر ہے۔ مقامی کپاس اور اس سے حاصل ہونے والے بائی پروڈکٹس پر سیلز ٹیکس میں کمی سے پیداواری لاگت میں کمی آئے گی۔

Related Posts