ہفتہ کو کرم ضلع میں متحارب قبائل کے درمیان جاری جھڑپوں میں مزید 16 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوگئے۔
یہ پرتشدد واقعات حالیہ دنوں میں دو مسافر قافلوں پر مسلح حملوں کے بعد شروع ہوئے تھے اور اب تک 44 افراد کی جانیں لے چکے ہیں۔
یہ خونی جھڑپیں علیزئی اور بگان قبائل کے درمیان ہوئیں اور یہ واقعات پاراچنار کے تحصیل لوئر کرم کے علاقوں بلش خیل، خرکلی، کنج علیزئی اور مقبل گاؤں میں رپورٹ ہوئے۔ مخالف گروہ ایک دوسرے کے خلاف بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر کرم ضلع میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔
جمعہ کے روز، کرم میں فرقہ وارانہ حملوں کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔ ان حملوں میں 44 افراد جن میں چھ خواتین اور پانچ بچے شامل تھے، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ مسلح افراد نے جمعرات کو پولیس کی حفاظت میں سفر کرنے والے دو مختلف مسافر قافلوں پر فائرنگ کی تھی۔
لاہور میں سیکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا۔مذہبی اسکالر خانم ندا جعفری نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہم لاشیں گن گن کر تھک چکے ہیں۔ یہ خونریزی کب ختم ہوگی؟ کیا ہمارے حکام شیعہ برادری کو اپنی آبادی کا حصہ نہیں سمجھتے؟ وہ کب جاگیں گے؟” انہوں نے مزید کہا، “ہم اپنے بچوں اور خواتین کے لیے امن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ بہت زیادہ ہے؟”
کراچی میں بھی سیکڑوں افراد نے احتجاج کیا۔ پاراچنار میں ہزاروں افراد نے دھرنے میں شرکت کی، جبکہ سیکڑوں افراد نے متاثرین کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ مقامی رہائشی محمد علی نے اے ایف پی کو بتایا، “نماز جنازہ کے بعد نوجوانوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور قریبی سیکورٹی چوکی کی طرف مارچ کیا۔”
ایک اعلیٰ انتظامی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “چند افراد نے چوکی پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے، ٹائر جلائے اور املاک کو نقصان پہنچایا،” تاہم صورتحال بعد میں قابو میں آگئی۔ اہلکار کے مطابق ضلع بھر میں کئی گھنٹوں کے لیے موبائل فون سگنل بند کر دیے گئے اور اپر اور لوئر کرم کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر کرفیو نافذ کر دیا گیا۔