افغانستان میں خواتین کے حقوق

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت نے ملک میں جبری شادیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ خواتین کو اپنی ملکیت نہیں سمجھنا چاہئے، بلکہ شادی کے لئے ان کی رضا مندی ضروری ہے، ہو سکتا ہے کہ طالبان کی جانب سے یہ اقدام عالمی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہو،لیکن طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے حقوق کے حوالے سے قابل ذکر قدم اُٹھانا ایک خوش آئند اقدام ہے۔

بدقسمتی سے، افغانستان کے زیادہ علاقوں میں شادیاں رسم و رواج کے مطابق ہوتی ہیں، بیواؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مرحوم شوہر کے خاندان میں شادی کریں، جبکہ بیٹیوں کو پیسے کمانے کی خاطر فروخت کردیا جاتا ہے اور اکثر نوجوان لڑکیوں کی شادی اُن کے بالغ ہونے سے پہلے کردی جاتی ہے۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے نام سے جاری کردہ ایک نئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ”عورت اور مرد دونوں کے حقوق برابر ہونا چاہیے۔” اس میں تاکید کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ازدواجی معاملات میں عورتوں اور لڑکیوں پر زبردستی نہیں کی جانی چاہیے، اور یہ کہ بیوہ کو اپنے شوہر کی وراثت میں حصہ لینے کا حق ہے۔

حکم نامے کے ذریعے، طالبان نے پوری حکومتی مشینری سے کہا ہے کہ وہ ”خواتین کے حقوق کے نفاذ کے لیے سنجیدہ اقدامات” کریں۔ حکم نامے میں نے اطلاعات و ثقافت کی وزارتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر مواد شائع کریں تاکہ اس اہم مسئلے کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے۔

افغان طالبان کے لیے، جن کی خواتین کے حقوق کے حوالے سے تاریخ خراب رہی ہے، یہ حکم نامہ یقیناً بڑی تبدیلی ہے۔ اگر طالبان واقعی اپنے قول پر سچے ہیں اور اس حکم نامے کو صحیح طریقے سے نافذ کرنا چاہتے ہیں تو اس سے رجعتی رجحانات میں بہت فرق پڑ سکتا ہے۔

خواتین کے حقوق سے متعلق حکم نامہ جاری کر کے طالبان نے اپنے اس وعدے کو برقرار رکھا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ طالبان کی سابقہ حکومت کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے یہ قدم عالمی برادری کو مطمئن کرنے اور دنیا کو یہ بتانے کے لیے اٹھایا ہے کہ وہ بدل چکے ہیں۔

جیسے جیسے موسم سرما کے دن قریب آرہے ہیں اور غذائی قلت کے باعث افغانستان میں بڑا معاشی بحران آنے کا خطرہ ہے، افغانستان کو فوری طور پر بین الاقوامی برادری سے فنڈز جاری کرانے کی ضرورت ہے۔ اس حکم نامے سے اُمید پیدا ہوچلی ہے کہ شاید بین الاقوامی دباؤ کم ہوجائے اور طالبان خواتین کے لئے مزید اچھے اقدامات کریں۔

Related Posts