کراچی: پاک سر زمین پارٹی نے بلدیاتی ترمیمی قانون کیخلاف فوراہ چوک پر دھرنا دے دیا، پی ایف سی کے فارمولے کے بغیر مئیر کے نیچے تمام ادارے بے معنی ہیں۔ پیپلز پارٹی خوشی خوشی ادارے دینے کو تیار ہے لیکن اصل مسئلہ انکے وسائل کا ہے جو پیپلزپارٹی کی کرپٹ اور متعصب حکومت دینے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف اختیارات نہیں وسائل بھی چاہئیں۔ پیپلزپارٹی کو کراچی سے کشمور تک کے عوام کے اختیارات اور وسائل دینے ہونگے۔ سندھ حکومت نے ادارے قبضے میں کام کرنے کے لیے نہیں رکھنے بلکہ انکا بجٹ اپنے پاس رکھنے کیلئے رکھے ہیں۔
پیپلز پارٹی اداروں کو بنانا نہیں چاہتی بلکہ انہیں اجاڑ کر انکے وسائل ہتھیا کر اس سے کرپشن کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیں بے وقوف نہیں بنا سکتی۔ جب تک ہماری بات نہیں مانی جاتی، ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔ اگر کسی نے مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو اسی زبان میں جواب ملے گا۔
دھرنے میں سب سے پہلے چئیر مین پی ایس پی سید مصطفی کمال نے بستر لگایا۔ مصطفی کمال نے کہا کہ پاکستان کو اٹھارویں ترمیم کے بعد جس طرح چلایا جا رہا ہے، اس سے پاکستان بند گلی میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ انتظامی اور مالی طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد ملک چلنے کے قابل نہیں رہا۔
اٹھارویں ترمیم کا اصل مقصد پورا نہیں ہوا، صوبوں کو اختیارات ملے لیکن نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوئے،صوبائی حکومتیں اٹھارویں ترمیم کے بعد بدترین ڈکٹیٹر بن گئیں ہیں۔ وفاق سے 56 فیصد پیسے لے کر صوبے نیچے نہیں دے رہے،وفاق کو 44 فیصد میں سے قرضے واپس کرنے ہیں۔
وزرا اعلی این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والے پیسوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔سندھ کو 56 فیصد کا 27 فیصد ملتا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلی کو ہر سال 1 ہزار ارب ملتے ہیں، 200 ارب روپے یہ کراچی سے ٹیکس کے زریعے کماتے ہیں۔
1200 ارب روپے سندھ حکومت کی سالانہ آمدنی ہے۔ وزیر اعلی ان 1200 ارب کو اکیلا خرچ کر رہا ہے، نیچے وسائل منتقل نہیں کر رہا۔ ہم نے 2017 میں انہی مسائل پر 18 دنوں تک دھرنا دیا تھا۔ 16 نکات پیش کیے، وہ یہی تھے کہ با اختیار بلدیاتی حکومتیں ہونی چاہیے۔
اس وقت لوگ ہمارا ان باتوں پر مزاق اڑاتے تھے، آج تمام جماعتیں سارا سندھ وہی بات کر رہی ہے جو ہم 6 سال سے کرتے آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے 70 فیصد باتیں ایک ہفتے پہلے مان لی تھیں لیکن یہ ہماری انا کا مسئلہ نہیں صحیح اور غلط کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام صحیح باتیں عوام اور پاکستان کی بہتری کے لیے منوائیں گے۔ پیپلز پارٹی نے 7 روز قبل آ کر ہماری بات سن لی لیکن مانی نہیں، اگر وزیر اعلی کو ہماری آواز نہیں آ رہی تو دروازے پر آ کر آواز لگا رہے ہیں۔
مہاجر شناخت کی وجہ سے سندھی، بلوچی، پنجابی، سرائیکیوں کو ہم سے نہیں لڑا سکتے، ہم سب کے حقوق کی بات کر رہے ہیں،ہماری جدوجہد سے سب ایک ہوئے ہیں، یہ بندوق کی نوک کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے سچ کی وجہ سے ایک ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: 23 مارچ صرف پریڈ والوں کا نہیں مارچ والوں کا بھی دن ہے،مولانافضل الرحمن