افغان امن کانفرنس میں تاخیر کیوں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد اور امریکی افواج کے انخلاء کے فوری بعد طالبان تیزی سے پیش قدمی کر رہے تھے۔ پاکستان جنگ زدہ افغانستان میں بحران سے بچنے کےلیے ایک کانفرنس کی میزبانی کرنے والا تھا۔

سابق صدر حامد کرزئی سمیت افغان قیادت کے متعدد اہم اراکین کو کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ تاہم افغان طالبان کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا اور توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان ان کے ساتھ ایک اور ملاقات کی میزبانی کرے گا۔

چونکہ افغانستان میں تیزی سے انتشار پھیل رہا ہے جبکہ پاکستان ممکنہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے ، اور اس کے لیے پاکستان نے خطے کے تمام اسٹیک ہولڈر کے ساتھ رابطے تیز کردیے ہیں۔

پاکستان اب افغانستان میں خانہ جنگی کی روک تھام کے لئے متبادل راستے تلاش کررہا ہے کیونکہ پاکستان کو یقین ہے کہ امریکا یقینی طور پر اب افغانستان میں امن و استحکام لانے میں تعمیری کردار ادا نہیں کرے گا۔

اس بات کا اظہار صدر جو بائیڈن کی حالیہ پریس کانفرنس سے ہوا، جس نے واضح طور پر کہا کہ یہ افغانستان کے عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ امریکہ چین اور روس سے نمٹنے پر توجہ دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی قوم کی تعمیر کے لیے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکہ کا بنیادی مقصد بغیر کسی دشواری کے اپنے فوجی دستوں کی واپسی کو یقینی بنانا ہے اور امن یا سیاسی حل تلاش کرنا اب امریکہ کی ترجیح نہیں ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو ایک مشکل ترین صورتحال میں ڈال دیا ہے کیونکہ افغانستان میں خانہ جنگی سے اس ملک کے لئے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اب چین ، روس ، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت دیگر علاقائی طاقتوں سے افغانستان کے سیاسی تصفیے کی امیدیں باندھ رہا ہے۔

چین امریکہ کے کردار کی جگہ لے سکتا ہے اور تمام افغان فریقوں کو امن معاہدے کے لئے قائل کرسکتا ہے۔ روس اور ایران ، جو اب افغان طالبان سے رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں، افغانستان میں بدامنی کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

پاکستان نے 3 روزہ کانفرنس کی میزبانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ افغان امن معاہدے پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرسکے، اور طویل عرصے تعطل کا شکار امن عمل آگے بڑھایا جاسکے۔ لیکن اس کانفرنس کے آغاز سے صرف ایک روز قبل کانفرنس ملتوی کردی گئی کیونکہ افغان حکومت نے اپنے وفد کو بھیجنے سے انکار کردیا۔

اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اور صدر اشرف غنی کی علاقائی رابطہ سمٹ کے موقع پر ازبکستان میں ملاقات کے بعد یہ اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔

افغان صدر اشرف غنی نے التوا کے لئے درخواست کی تھی اور تیاری کے لئے مزید وقت طلب کیا تھا۔ تاہم یہ اطلاعات ہیں کہ سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان جن نکات پر زور دیا اس سے افغان صدر اشرف غنی ناراض ہوگئے تھے۔

وزیر اعظم عمران نے کہا تھا کہ افغانستان کی صورتحال کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ انہیں افغان صدر اشرف غنی کے تبصرے سے ‘انتہائی مایوس’ ہوئی ہے۔

انہوں نے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ امریکی فوجیوں کی واپسی کے اعلان کے بعد افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے پاکستان نے مختصر فوجی کارروائی اور تمام دستیاب ذرائع استعمال کیے۔

کانفرنس کے التوا سے پاکستان اور یہاں تک کہ دوسرے افغان رہنماؤں کے لئے بھی بہت مایوسی ہے جنہوں نے اپنی شرکت کی تصدیق کی تھی۔ یقینی طور پر وقت ختم ہو رہا ہے اور سیاسی تصفیہ کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس کانفرنس میں بہت ساری تجاویز پیش کی جانی تھیں اور ان کانفرنسز کے نکات بھی شامل کیے جانے تھے جن میں طالبان رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے کی وجہ سے ، کانفرنس اگر اپنی مقررہ مدت سے زیادہ تاخیر کا شکار رہی تو یہ اپنی افادیت کھو سکتی ہے۔

افغان طالبان اس وقت پاکستان کی سرحدوں پر ہیں اور انہوں نے اسپن بولدک بارڈر کراسنگ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ افغان سیکیورٹی فورسز نے کسی حد تک مزاحمت کی تھی مگر طالبان نے کراسنگ پر قبضے کا دعویٰ کررکھا ہے۔ افغان نائب صدر نے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے فضائی حملوں کی دھمکی دی ہے اگر طالبان نے سرحد پار کرنے کی کوشش کی۔

بہر حال ، پاکستان امن کوششوں کے لئے پرعزم ہے کیونکہ پڑوسی ملک میں کسی بھی طرح کی بدامنی سے بہت زیادہ مضمرات سامنے آسکتے ہیں۔ افغان عہدیداروں کو وقت کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہئے تاکہ ایک حل طلب مسئلے کو حل کیا جاسکے۔