نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پاکستان کی قومی ہیرو کیوں نہیں بن سکتیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی سالگرہ کے ایک روز بعد پاکستان میں محکمہ تعلیم کے حکام نے فیصلہ کیا کہ ملالہ یوسفزئی کی تصویر والی نصابی کتب ضبط کرلی جائیں اور انہیں سالگرہ کا تحفہ پیش کیا جائے۔

مذکورہ کتب میں ملالہ یوسفزئی کو ایک اہم قومی شخصیت کے طور پر اجاگر کیا گیا تھا۔ بظاہر حکام نے اسلام کے متعلق ان کے متنازعہ نظریات کے بعد ملالہ کے خلاف یہ اقدام اٹھایا لیکن یہ وہ واحد امتیازی سلوک نہیں جو ملالہ کو برداشت کرنا پڑا۔

بہت کم عمر میں پاکستان کیلئے بہت کچھ حاصل کرنے کے باوجود محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو پاکستانی قوم آج بھی اپنا قومی ہیرو تسلیم کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ آئیے غور کرتے ہیں، کہ ایسا کیوں ہے۔

ملالہ کی وجہِ شہرت

سوات کے علاقے مینگورہ میں پیدا ہونے والی ملالہ یوسف زئی تعلیم کی بڑی علمبردار مانی جاتی ہیں جنہیں 2012 میں طالبان کے مسلح اہلکار نے تعلیم کی اہمیت پر اظہارِ خیال کے دران سر میں گولی ماردی تھی تاہم یہ لڑکی معجزانہ طور پر زندہ بچ گئی۔

نہ صرف ملالہ یوسفزئی زندہ ہیں بلکہ یہ وہ واحد لڑکی ہے جس نے سب سے کم عمر میں 2014ء میں امن کا نوبل انعام جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا اور دیگر بھی بہت سی اہم کامیابیاں اپنے نام کیں۔

کامیابیوں کے دیگر سنگِ میل

امن کا نوبل انعام تو جیت لیا لیکن ملالہ یوسفزئی انگلینڈ کے ایک اسکول میں داخل ہوئیں اور تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری بھی لے لی تاہم گولیاں اور بندوقیں ملالہ کو بولنے سے نہ روک سکیں۔

گزشتہ 8 سال سے ملالہ یوسفزئی ان گنت کامیابیاں حاصل کرچکی ہیں جن کا تصور بھی ا چھوٹی سی عمر میں محال ہے۔ آج تک ملالہ یوسف زئی اپنی بہادری اور تعلیمی و سماجی سرگرمیوں پر 40 سے زائد اعزازات اپنے نام کرچکی ہیں۔

آج سے 7 سال قبل 2014ء میں کنگ کالج یونیورسٹی سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور گریمی ایوارڈز بھی اس میں شامل ہے۔ ملالہ نے اپنی ایک این جی او بنا رکھی ہے جس کا نام ملالہ فنڈ ہے اور یہ فنڈ خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے ہے۔

شام میں خانہ جنگی کے دوران مہاجرین کیلئے ملالہ نے لبنان میں لڑکیوں کا ایک اسکول کھولا اور ایک سوانح عمری لکھی جس کا عنوان آئی ایم ملالہ، دی گرل ہے۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یوسفزئی نوبل انعام کی سب سے کمسن فاتح بنیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے ملالہ یوسفزئی کو اقوامِ متحدہ کی سفیرِ امن مقرر کیا۔

ملالہ کو پاکستانی قوم ہیرو کیوں مانے؟

آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن نے نہ صرف ملالہ کو قومی ہیرو کے طور پر دکھانے والی نصابی کتب ضبط کیں بلکہ نوبل انعام یافتہ لڑکی کے سامنے اسے بے نقاب کرنے کیلئے نوبل انعام لینے پر دستاویزی فلم بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ بہت سی کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود ملالہ آج بھی پاکستان کی ایک متنازعہ شخصیت مانی جاتی ہے۔ بہت سارے پاکستانی شہری ملالہ کو ملک کا امیج خراب کرنے کا الزام لگاتے ہوئے شرمناک بلکہ غدار تک کہتے ہیں۔

زیادہ تر پاکستانی شہری ملالہ کو قومی ہیرو سمجھنے کے خیال کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ملالہ پاکستانی ہے یا نہیں؟ ان کیلئے یہ بھی ایک سوال ہے۔ سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر ملالہ پاکستانی ہے تو وطن واپس کیوں نہیں آتی۔

ایک اور بڑا سوال جو کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان نے اگر ملالہ کو سر پر گولی ماری تھی تو وہ بچ کیسے گئی؟ بعض شہریوں کا کہنا ہے کہ ملالہ کے سر پر گولی کا لگنا سراسر ایک دھوکہ اور فریب ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔

بہت کم پاکستانی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملالہ نے بہت سے پلیٹ فارمز پر پاکستان کی نمائندگی کی اور کم عمری میں خواتین کی تعلیم کیلئے ایک علمبردار کا کردار ادا کیا یا پھر یہ کہ ان کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ اس کے باوجود ملالہ کو قومی ہیرو قرار نہیں دیا جاسکا۔