کراچی: وزیر اعظم پاکستان نے میجر جنرل (ر)ڈاکٹرغلام قمر کو وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ امور کے ماتحت مد رسہ ڈائریکٹوریٹ میں بحیثیت ڈائریکٹر جنرل ریلیجس ایجوکیشن نوٹیفیکشن کی منظوری دے دی ہے، میجرجنرل(ر) غلام قمر نے گزشتہ روز بحیثیت ڈائریکٹر جنرل مذہبی تعلیم کے جوائننگ دیدی ہے۔
ایم ایم نیوز کی جانب سے 15اگست کو دی گئی خبر سچ ثابت ہو گئی، دستاویزات کے مطابق 13اکتوبر کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے6اکتوبرلیٹر نمبر No.2001/SPM/2021کے تحت میجر جنرل(ر)ڈاکٹر غلام قمر کو وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ امور کے ماتحت مد رسہ ڈائریکٹوریٹ میں بحیثیت ڈائریکٹر جنرل ریلیجس ایجوکیشن تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔
جس کے بعد 13اکتوبر کو وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ امور کیڈپٹی سیکرٹری ایڈمن حکیم خان نیازی کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن نمبر No.F-1-46/2014-SS-REکے مطابق میجر جنرل (ر)ڈاکٹرغلام قمر کو مدرسہ ڈائریکٹوریٹ میں دینی مدارس میں نئی اصلاحات لانے کے لئے ڈائریکٹر جنرل ریلیجس ایجوکیشن تعینات کردیا گیا ہے۔جس کے فورا بعدمیجر جنرل (ر)ڈاکٹرغلام قمر نے چارج سنبھال لیا ہے۔
وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ اموراسلام آباد کی جانب سے ایک ماہ قبل ڈائریکٹر جنرل ریلیجس ایجوکیشن کے منصب کا اشتہار وزارت کی آفیشل ویب سائٹ اور مقامی اخبار میں دیا گیا تھا۔
موجودہ حکومت کے وزیر تعلیم شفقت محمود سے اچھے مراسم کی وجہ سے میجر جنرل(ر)غلام قمر کو اس منصب پر لانیکی تیاری شروع سے ہی کی گئی تھی،تاہم خانہ پری کے لئے ایک مقامی اخبار میں مبہم انداز میں اشتہار دیاگیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر یہ اشتہار عید الاضحیٰ سے ایک دن قبل چھٹی کے دن دیا گیا،جس وقت لوگ عمومی طور پر قربانی کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں۔
وزارت کے ایک اہم ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل کوشروع سے مدرسہ ڈائریکٹوریٹ میں لانے کی تیاری کی گئی تھی، جس کے اشارے اشتہار کی تیاری کرنے والے افسران کو دیئے گئے تھے۔
ذرائع نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں دس نئے دینی مدارس کے وفاقات بنانے کے بعد اب پاکستان بھر کے دینی مدارس کے لیے نئی پالیسی وضع کی جائے گی تاکہ مدارس حکومتی کنٹرول میں رہیں اور مدارس کی آزادی کو کنٹرول کیا جا سکے اور مدارس کسی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہ بن سکیں۔
جب کہ مدارس میں اصلاحات، رجسٹریشن، فنڈ ریزنگ، اکاؤنٹ، آڈٹ رپورٹ جیسے معاملات پر بھی کڑی نگرانی کی ہدایت بین الاقوامی دباؤ ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں عمل میں لائی جانے کا امکان ہے۔
حیرت انگیز طور پر پہلی بار مدرسہ ڈائریکٹوریٹ میں سول کے ساتھ آرمز فورسز کے ریٹائرڈ افسر کوبھی لینے کیلئے اشتہار میں واضح طور پرلکھا گیا تھا، اس کے علاوہ اسامی کیلئے امیدوار کی عمر زیادہ سے زیادہ 62 برس رکھی گئی تھی۔
جبکہ اشتہار میں افسران نے وزیر تعلیم کی مرضی کے بغیر تجربہ میں متعلقہ شعبہ یعنی مدرسہ ریفارمز کیلئے 25 سالہ تجریہ مانگا گیا تھا۔جس کی وجہ سے وزیر تعلیم نے اشتہار کی تیاری کے بعد محکمے کے افسران کی سرزنش بھی کی تھی۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا ہے مشرف دور حکومت میں مدارس کو کنٹرول کرنے کیلئے بنایا جانے والا پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ جو کہ باقاعدہ ایکٹ ہے اور اسے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے وزارت تعلیم کی جانب سے تجویز پارلیمنٹ کو ارسال کر دی گئی ہے۔
اس کے بعد مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور اس کے تحت کراچی، سکھر اور اسلام آباد کے تینوں ملحقہ ماڈل دینی مدارس کے تمام ملازمین بھی فارغ کر دیے جائیں گے۔
معلوم رہے کہ اس وقت مشرف دور کا قائم کردہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور تینوں مدارس گزشتہ دو سال سے غیر فعال ہیں اور تمام ملازمین سالانہ چھ کروڑ کے بجٹ میں تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل کر رہے ہیں۔
دوسری جانب موجودہ حکومت دو برس قبل مدرسہ ڈائریکٹوریٹ کا قیام بطور پروجیکٹ عمل میں لائی تھی اور ایک ریٹائرڈ افسر رفیق طاہر کو غیر قانونی طور پر دو برس تک ذمہ داری پر فائزبھی رکھا گیا۔
مزید پڑھیں: سندھ مدرسۃالسلام کے سابق وائس چانسلرسے سوا کروڑ روپے سے زائد ریکوری کی تیاری