پاکستانی معاشرے میں خواتین کے خلاف تشدد کیوں بڑھ رہا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں جولائی کے مہینے میں خوفناک واقعات دیکھنے میں آئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین کو جنسی تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہےاور بعض کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

حالیہ واقعات نے اس سوچ کو جنم دیا ہے جو حقیقت پر بھی مبنی ہے کہ پاکستان میں خواتین محفوظ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ وہ لوگ جو خواتین کی حفاظت کے خدشات کی مخالفت کر رہے ہیں ان سے صرف ایک سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ” کیا آپ نے کبھی پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والے شخص کو دیکھا ہے؟”

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کچھ نئی بات نہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تشویش یہ ہے کہ یہ صنف نازک پر مبنی تشدد پاکستان میں کب ختم ہوگا اور کیوں بڑھتا جارہا ہے؟

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد

خواتین کے حوالے سے “پیس اینڈ سیکیورٹی انڈیکس” کے 2019 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان 167 ممالک میں سے 164 نمبر پر کھڑا ہے۔ 2017 میں ایک اندازے کے مطابق 746 غیرت کے نام پر جرائم ، 24 چولہے جلانے ، کاروکاری کے 18 واقعات رپورٹ ہوئے۔ بہت سے معاملات بغیر کے رہ جاتے ہیں، اور بہت سے معاملات میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آتی ہے۔

پاکستان میں خواتین کو کس صنف پر مبنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

پاکستان میں خواتین کام کرنے کی جگہ جنسی طور پر ہراساں کرنے ، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل و غارت گری کے ذریعے اور شادی شدہ خواتین کو شوہروں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا عام سے بات ہے۔ یہاں تک کہ نابالغ لڑکیاں بھی ملک میں محفوظ نہیں ہیں۔

نور مقدم کو پہلے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا پھر اس کا سر قلم کردیا گیا ۔ اس واقعے سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ صنف نازک پر مبنی تشدد معاشرے میں موجود ہے، پھر چاہے وہ ایک مراعات یافتہ پس منظر کی لڑکی نور مقدم ہو یا نسیم بی بی یا پھر ایک بے بس ماں ہو جس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہو پھر اس کے 14 ماہ کے بچے کو چھری کے تیز وار کرکے قتل کردیا گیا ۔ یہ تمام واقعات اس جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی عورت محفوظ نہیں ہے۔

پاکستان میں خواتین پر تشدد کیوں بڑھ رہا ہے؟

پاکستانی معاشرہ ایک انتہاپسند معاشرہ ہے جس کی وجہ سے خواتین پر تشدد بڑھتا جارہا ہے پھر چاہے وہ بہیمانہ قتل ہو یا عصمت دری سب برابر ہے۔

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کی ایک اور بڑی وجہ قانونی سقم ہیں کیونکہ جو قوانین خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ان پر عملدرآمد ہی نہیں کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بڑھتی عصمت دری کی تیسری اور انتہائی اہم وجہ الٹا متاثرہ خاتون کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک کا وزیراعظم زیادتی کے محرکات کو کم لباسی سے تشبیہہ دے اس ملک کا کیا ہوسکتا ہے۔ جب تک اس طرح کے بیانات ختم نہیں ہوں گے، اصل حقائق سامنے نہیں آئیں گے۔ قومی اسمبلی سے آج تک مناسب گھریلو قوانین منظور نہیں کرائے جاسکے ہیں۔ نور مقدم کو اس کے ایک جاننے والے تشدد کرکے قتل کردیا اسی طرح چار بچوں کی ماں قراۃ العین کو اس کو اس کے شوہر نے بدکاری کا الزام لگا کرقتل کردیا۔

خواتین پر تشدد کو کس طرح قابو کیا جاسکتا ہے؟

جولائی کے مہینے کے شروع میں قومی اسمبلی میں خواتین اور بچوں پر گھریلو تشدد کے خلاف بل پیش کیا گیا جو حزب اختلاف کی مخالفت کی وجہ سے زیر التواء ہے۔ اگر اس کے قوانین منظور کرلیے جاتے تو خواتین کے خلاف ہونے والے بیشتر کو روکا جاسکتا تھا۔

دوسری جانب جب تک خواتین اور بچوں پر تشدد کو روکنے کے حوالے سے معاشرے کو تعلیم اور شعور دینے کی اشد ضرورت ہے۔ لڑکوں کو خواتین کے احترام کی تعلیم دینی ہو گی۔ تاکہ وہ اپنی ماں اور بہن کے علاوہ دیگر خواتین کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔