عمران خان عافیہ صدیقی کی رہائی کا وعدہ کب وفا کرینگے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امریکی جیل میں 86 برس کی سزاء کاٹنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے موجودہ حکومت کی پراسرار خاموشی نے کئی سوالات اٹھادیئے ہیں، پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کا معاملہ سب سے پہلے پوری شدت سے سامنے لانے والے عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالےسے زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیتے ، ان کی بے اعتناعی نے عافیہ صدیقی کے خاندان کو بھی مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کیلئے آمادہ ہو گئی ہیں جبکہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی نے وزیراعظم عمران خان کو اپنی آخری امید قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی کے حوالے سے سب سے بڑی اور موثر آواز عمران خان کی تھی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی رہائی باآسانی ممکن ہے، تمام تر اقدامات مکمل ہیں ،اب حکومت مستعدی دکھائے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لایا جاسکتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے پراسرار خاموشی وزیراعظم عمران خان کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے۔

عافیہ صدیقی کون ہیں؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2 مارچ1972ء کوکراچی میں پیدا ہوئیں اور کراچی اورزیمبیا میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکاکی جامعہ ٹیکساس اورپھر وہاں سے میساچوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی (MIT) چلی گئیں جہاں سے وراثیات میں  پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور2020 ء میں واپس پاکستان آئیں تاہم پاکستان میں ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے واپس امریکا چلی گئیں جہاں سے 2003ء میں وطن واپس لوٹیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا پراسرا اغواء
خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پاکستان میں نظام کے حوالے سے ایک منصوبے پر کام کررہی تھیں اور اس حوالے سے ان کی اس وقت کے چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو سے ایک ملاقات طے تھی جس کیلئے وہ 30 مارچ 2003ء کو راولپنڈی جانے کیلئے کراچی ہوائی اڈے کی طرف اپنے 3 بچوں کے ساتھ روانہ ہوئیں لیکن راستے میں لاپتہ ہوگئیں۔ اہل خانہ نے ان کا سراغ لگانے کی کافی کوشش کی لیکن پانچ سال کی طویل جدوجہد کے باوجود ان کا کوئی پتہ ناچل سکا۔

کراچی سے گمشدگی اور افغانستان میں موجودگی
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغواء اورافغانستان تک پہنچنا کسی فلمی کہانی سے کم نہیں ہے، کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ عافیہ صدیقی کو کراچی سے اغواء کیا گیا جبکہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق عافیہ صدیقی طالبان رہنماء بیت اللہ محسودکی تلاش میں افغانستان پہنچی تھیں۔

یہ خبریں بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ عافیہ صدیقی اپنے بیٹے کے ساتھ کابل میں ایک غلط پتے کے بارے میں دریافت کرتی پائی گئیں جبکہ انہوں نے 3 راتیں مقامی پیش امام کے گھر میں بسر کیں۔

اس پیش امام کو امریکیوں نے بعدازاں گرفتار بھی کیا جو اب وفات پاچکے ہیں۔پیش امام کے بیٹے کا دعویٰ تھا کہ اس خاتون کو بس میں بٹھا کر غزنی روانہ کردیا تھا اور اس کے الگے روز ان کی گرفتاری کی خبریں سامنے آئیں۔

قید میں موجودگی کا انکشاف
افغانستان میں طالبان کی قید میں اسلام قبول کرنیوالی برطانوی صحافی ایون ریڈلی نے بگرام بیس پر امریکی حراستی مرکز میں ایک مسلمان خاتون قیدی نمبر650 کے حوالے سے انکشاف کیاجس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم آمنہ مسعود جنجوعہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی حراست کے حوالے سے معاملہ اجاگر کیا۔

عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ فوزیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم لوگ اپنی تلاش بسیار کے بعد خاموش ہوچکے تھے لیکن عمران خان نے مجھے عافیہ کی بازیابی کیلئے تحریک کا مشورہ دیا جس کے بعد ہم نے عافیہ موومنٹ کے نام سے باقاعدہ ایک منظم مہم کا آغاز کیا۔

ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری
ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2002ء میں امریکا میں میری لینڈ میں ایک ڈاک کا ڈبہ کرائے پر لینے کے بعدامریکی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی کی نظروں میں آئیں، ایف بی آئی کو شبہ تھا کہ انہوں نے یہ ڈبہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کیلئے کرائے پر حاصل کیا ہے اور خود پاکستان روانہ ہوگئی  ہیں جبکہ امریکا میں بطور دہشت گرد تشہیر کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کراچی میں روپوش رہنے کی بھی اطلاعات موجود ہیں۔امریکا نے 2004ء میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دہشت گردی کے الزام میں مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

امریکی فوج کا دعویٰ  ہے کہ افغانستان میں گرفتاری کے وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے قبضے میں موجود شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں سے ایسی دستاویز برآمد ہوئیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے جبکہ امریکی عدالت میں ان پر امریکی فوجیوں پر فائرنگ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

عافیہ صدیقی کی عدالت میں پیشی اور سزاء
عدالت میں میں پیشی کے وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی انتہائی کمزور اور نحیف دکھائی دیںاور انہوں نے عدالت میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے انکار کردیا ۔ ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ کا کہنا ہے کہ عافیہ کا کیس سننے والے پہلے جج نے اس کیس کو مسترد کرتے ہوئے انہیں  واپس افغانستان بھیجنے کا حکم دیا تھا تاہم امریکی حکام نے اس جج کو ہٹاکر دوسرے جج کے سامنے کیس پیش کیا جس نے 23ستمبر2010ء کوعافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزاء سنائی ۔

حکومتی اقدامات
2009ء میں وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کی پیروی کیلئے 2 ملین ڈالر وکلاء کو دینے کا عندیہ دیا تاہم لاہور ہائیکورٹ نے خردبرد کے خدشے کے پیش نظر حکومت کو یہ رقم ادا کرنے سے روک دیا تھا۔
حکومت پاکستان نے ستمبر 2010ء میں امریکی حکام سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو باعزت وطن واپس بھیجنے کیلئے خط ارسال کرنے کا دعویٰ کیا۔2013ء میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ سے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں ان کی واپسی کا وعدہ کیا تھا۔
اپریل 2019ء میں ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایاکہ حکومت ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے پہلوؤں کو دیکھ رہی ہے لیکن ڈاکٹر عافیہ پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔

عمران خان نے 2018ء کے عام انتخابات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ اپنے منشورمیں شامل کیا اور وزیراعظم بننے کے بعد القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں مدد کرنےوالے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کوپاکستان لانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں تاہم دورہ امریکا کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔