لانگ مارچ اچانک کیوں ختم ہوا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لانگ مارچ اچانک کیوں ختم ہوا؟
لانگ مارچ اچانک کیوں ختم ہوا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لانگ مارچ کا اچانک ختم ہوجانا ہر ایک کے لئے تعجب انگیز ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا حیرت زدہ رہ جانا تو سمجھ میں آتا ہے کہ جو لوگ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے آنسو گیس کی شیلنگ کا مقابلہ کر رہے تھے، اچانک وہ سب پروگرام ہی ختم ہوگیا۔ سیاسی مبصرین بھی اس پر حیران ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اصل بات کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اصل خبر کا کسی کو علم نہیں۔ اس حوالے سے مختلف منطقی کڑیاں کو ملانے کی ضرورت ہے اور کچھ اشارے ہیں جن سے تھوڑا بہت اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس دیانت دارانہ اعتراف کے بعد ہم اس تصویر کے ٹکڑے جوڑنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔

میری معلومات کے مطابق پی ٹی آئی کے کئی مرکزی رہنماؤں کو بھی علم نہیں کہ ہوا کیا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ عمران خان نے صرف شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو بلایا اور انہیں اس فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا۔ ظاہر ہے اس کے مضمرات پر بھی بات ہوئی ہوگی، دونوں نے اپنا مشورہ دیا، مگر ہوا وہی جو بعد میں عمران خان نے کیا۔

لانگ مارچ ملتوی کرنے کے حوالے سے مختلف تھیوریز اور مفروضے بیان کئے جا رہے ہیں۔

زیادہ لوگ نہیں نکلے

یہ تو بیکار سی بات ہے کہ زیادہ لوگ جمع نہیں ہوئے تو عمران خان نے ایسا کیا۔ نہیں یہ بات قطعی نہیں، لوگ اتنے کم نہیں تھے جتنے مختلف ٹی وی چینلز پر بتائے گئے۔ رات کو ڈی چوک پر بیس ہزار کے قریب لوگ جمع ہوگئے تھے۔ پندرہ بیس ہزار عمران خان کے ساتھ آئے، یعنی تیس پینتیس ہزار ہو جانے تھے، پھر جب وہ دھرنے کے لئے بیٹھ جاتے تو لوگ آتے جاتے رہتے۔

دھرنادیتے توپھنس جاتے

ایک صحافی دوست نے رانا ثنا اللہ کو کوٹ کیا جن کے مطابق عمران خان کو خدشہ تھا کہ ابھی بیس پچیس ہزار لوگ ہیں تو دھرنے پر بیٹھ گیا تو پانچ ہزار بچ جائیں گے، اس ڈر سے وہ نہیں بیٹھا۔ بات یہ بھی نہیں، کیا عمران خان کو لانگ مارچ سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے؟ آٹھ سال پہلے ان کے ساتھ یہی ہوا تھا، جتنے لوگوں کو وہ لے کر اسلام آباد گئے تھے، بعد میں تعداد اس سے خاصی کم رہ گئی تھی۔ یہ تو فطری امر ہے، اسے سمجھنے کے لئے کون سی راکٹ سائنس درکار تھی؟

کارکن تھک چکے تھے

ایک انصافین دوست نے کہا کہ ہمارے کارکن رات بھر کی شیلنگ سے تھک گئے تھے، صبح ان کے لئے پولیس سے لڑنا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا عمران خان نے کارکنوں کی تھکن کا خیال کیا۔

بات یہ بھی نہیں

عمران خان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ سب کچھ ہونا ہے۔ حکومت نے واضح کر دیا تھا۔ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا، جن کا غم وغصہ اور انتقامی جذبہ عروج پر ہے۔ پولیس کی تمام تیاریوں کی رپورٹ عمران خان کے پاس تھی۔ عمران خان کا کاررواں صبح ہی پہنچنا تھا، صوابی سے ڈی چوک پہنچنے میں اسے اتنا وقت لگتا ہی ہے، کارکنوں نے ہر حال میں صبح کو نڈھال ہی ہونا تھا۔

کھیل کے قوانین طے تھے

یہ تو سب وہ ہے جو کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی عمران خان کے علم میں تھا، انہیں معلوم تھا کہ ان کے مارچ کو بڑا نہیں ہونے دیا جائے گا، پنجاب سے لوگ نہیں آسکیں گے، تمام تر انحصار کے پی پر ہی ہوگا۔ یہ بھی پتہ تھا کہ بے رحمانہ قوت کا استعمال ہوگا، وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ دوسرے شہروں سے آئے کارکن رات بھر اسلام آباد میں سڑکوں پر مارے مارے رہنے کے بعد تھکن سے چور ہی ہوجائیں گے اور دھرنا انہیں مزید تھکا دے گا۔

عمران خان نے جب لانگ مارچ کا فیصلہ اور اعلان کیا اور پھر پیش رفت شروع کی تو ان سب پہلوؤں کو ذہن میں رکھ کر وہ آگے بڑھے۔ انہوں نے بڑا رسک لیا تھا، اپنے آپ کو بھی خطرے میں ڈالا اور اپنی سیاست کو بھی، لانگ مارچ اور دھرنا ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتا ہے کہ ایک بار اس میں دھنسنے کے بعد واپس نکلنے کا آسان راستہ نہیں ہوتا۔ آٹھ سال پہلے ان کا دھرنا ایک بند گلی میں جاچکا تھا۔ پشاور سکول کا سانحہ نہ ہوتا تو عمران خان کے پاس واپسی کی راستہ ہی نہیں بچا تھا۔ اس بار بھی عمران نے نپا تلا رسک لیا، دانستہ، جان بوجھ کر۔

فیصلہ کن لمحات

میرے حساب سے لانگ مارچ کے فیصلہ کن لمحات بدھ اور جمعرات کی رات تین چار بجے سے صبح چھ بجے کے درمیان آئے۔ میں رات کو جاگ کر لائیو ٹرانسمیشن دیکھ رہا تھا، بیچ میں مختلف صحافی دوستوں اور ڈی چوک پر موجود انصافین احباب سے بھی بات ہو رہی تھی۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ اسلام آباد داخل ہونے کے بعد بھی عمران خان کا کارروان ڈی چوک پہنچنے میں اتنی تاخیر کیوں کر رہا ہے? ایک وقت آیا جب پتہ چلا کہ ایک دو کلومیٹر دور ہی رہ گیا ہے، ساڑھے تین بجے کے قریب مجھے کچھ دیر کے لئے نیند آگئی۔ چھ بجے آنکھ کھلی، چیک کیا تو پتہ چلا کہ ابھی تک نہیں پہنچا  اس پر شدید حیرت ہوئی کہ تاخیر کیوں ہورہی ہے۔

سات بجے کے قریب عمران خان کی تقریر نشر ہونے لگی، بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے جناح ایونیو پر کارکنوں سے خطاب کیا اور وہ لانگ مارچ کا اختتام کر کے، چھ دنوں کی مہلت دے کر ڈی چوک گئے بغیر ہی واپس اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق جو کچھ بھی ہوا، وہ ان آخری دو گھنٹوں میں ہوا۔

ڈیل ہوئی یا کچھ اور

سچی بات یہ ہے کہ یہاں پر ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے اہم لیڈر بھی بے خبری ظاہر کر رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے پہلے ہی سختی سے ہونٹ بند کر رکھے ہیں۔ ن لیگ والے اپنا ڈھول پیٹنے اور اپنا ڈس انفارمیشن پر مبنی بیانیہ چلانے کی کوشش میں ہیں۔

مفروضہ نمبر ایک:

ن لیگی حلقے اس تھیوری کو سپورٹ کررہے ہیں ۔ ان کے مطابق اہم حلقوں نے خان صاحب کو تھریٹ کیا کہ اگر وہ فوری لانگ مارچ ختم نہیں کرتے تو ان کے خلاف توہین عدالت میں سخت کارروائی ہوگی اور پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن بھی ہوجائے گا۔ اس سے خوفزدہ ہوکر فوری مارچ ختم کر دیا گیا۔

مجھے یہ بات وزنی نہیں لگتی۔ عمران خان کو یوں آسانی سے ڈرایا، دھمکایا نہیں جاسکتا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو شائد پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ میں جو کچھ ہم نے دیکھا، وہ ہوا ہی نہ ہوتا۔ پھر توہین عدالت کی کارروائی یوں آسانی سے نہیں ہوسکتی۔ تحریک انصاف نے ایسی بڑی خلاف ورزی بھی نہیں کر ڈالی تھی کہ انہیں توہین عدالت میں سخت سزا سنا دی جائے۔ عدالت بھی سماج کا حصہ ہے، وہ یوں انتہا پر نہیں جاتی۔

مفروضہ نمبر دو:

ایک سازشی تھیوری یہ چل رہی ہے کہ اہم حلقوں کے کہنے پر ہمارے ایک اہم دوست مسلم ملک کے شہزادے نے مداخلت کی اور ان کی گارنٹی پر عمران خان لانگ مارچ فوری ملتوی کرنے پر آمادہ ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ضمانت دینے والے نے چند دنوں کی مہلت لی اور کہا کہ اسمبلی تحلیل ہو کر نئے انتخابات کا اعلان ہوجائے گا۔ اس پر خان صاحب بادل نخواستہ رضامند ہو گئے۔

یہ مفروضہ ہی ہے، مگر ممکن ہے کہ درست ہو۔ پاکستان میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے دوست ممالک ہمارے مفادات میں ایسی ثالثی کراتے رہے ہیں۔ خود میاں نواز شریف کو جنرل مشرف کے چنگل سے بھی ایسے ہی نکالا گیا۔ ممکن ہے ایسا ہو، اگر یہ درست ہے تو پھر اس ضمانت پر سختی سے عمل بھی ہو جائے گا۔

مفروضہ نمبر تین:

اس میں چہرے نمایاں نہیں، مگر یہ کہا جارہا ہے کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ ہوا ہے، مذاکرات، ثالثی کی کوششیں وغیرہ۔ اس حد تک یہ بات درست ہے کہ یہ عمل کئی دنوں سے چل رہا تھا۔ ملتان کے جلسے سے پہلے مجھے یہ اطلاع ملی کہ آج لانگ مارچ کی تاریخ نہیں دی جائے گی، بلکہ اسے دو دنوں کے لئے آگے کر دیا جائے گا۔ بعد میں ویسا ہی ہوا۔ پھر دو دن کے بعد خان نے ڈیٹ دی تو یہ بھی پتہ چلا کہ مذاکرات ابھی چل رہے تھے، مگر خان نے ایک اہم ملاقات کی خبر سن کر لانگ مارچ کا جارحانہ فیصلہ کر ڈالا۔ اب فیصلہ کن لمحات میں پھر سے رابطے ہوئے اور مارچ ملتوی کرنے اور چند دنوں کی مہلت دینے کی صورت میں معاملہ حل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

اب کیا ہوگا:

چھ دن کی مہلت عمران خان نے دی ہے، میرا خیال ہے کہ وہ اکتیس مئی تک مہلت دینا چاہتے تھے، انہوں نے کہا کہ جون میں اعلان کیا جائے گا۔ یہ ممکن ہے چھ دن ختم ہونے کے بعد چند دن تک مزید التوا رہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ حکومت اور اپوزیشن الیکشن کے حوالے سے مذاکرات کے لئے کمیٹی بنا دیں، جو چند دن مزید لے جائے، اس دوران بجٹ بھی پیش ہوجائے اور پھر اس کے بعد اسمبلی تحلیل ہو جائے۔

اگر ایسا نہ ہوا تو:

اصولی اور منطقی طور پر تو یہ عین ممکن ہے کہ چھ دن بعد یا اگلے ماہ بھی اسمبلی تحلیل نہ ہو۔ حکومت یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ اپنی مدت مکمل پوری کرے گی اور الیکشن اگلے سال ہی ہوں گے۔

اس کے باوجود آج جس طرح عجلت میں حکومت نے قانون سازی کی وہ اور کہانی سنا رہی ہے۔ ایک ہی دن میں تین اہم قانون سازی کرلی گئیں، وہ تمام چیزیں جو حکومت کرنا چاہتی تھی، آج ہوگئیں۔ یہ ترامیم منظور ہونے اور صدر سے دستخط کے بعد حکومت کو اسمبلیوں سے کچھ خاص مطلب نہیں رہے گا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ اگر مدت پوری کرنی ہے تو پھر قانون سازی میں اتنی عجلت کیوں؟ الیکشن اگر سال بعد ہونے ہیں تو پھر انتخابی قوانین میں اتنی جلدبازی سے ترامیم کیوں؟

بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ جی کا جان ٹھہر گیا ہے، آج گیا یا کل گیا، عمران خان پر تنقید کے تیر برسانے والے اپنے تیر کمان میں چند دنوں کے لئے روکے رکھیں۔ ممکن ہے آنے والا وقت عمران خان کے آج کے بظاہر سمجھ نہ آنے والے فیصلے کی تائید کر ڈالے۔

Related Posts