اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بادشاہ سلامت کا موڈ بہت خراب تھا۔ شکار سے واپس آئے تو پتہ چلا کہ ان کے شکار کے منصوبے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ تخت پر بٹھائے ہوئے کٹھ پتلی وزیر نے پسِ پردہ بادشاہ کا تختہ الٹنے کی تیاری جو کر لی تھی۔

مسئلہ یہ آن پڑا تھا کہ مذکورہ کٹھ پتلی وزیر کو کسی نے یہ پٹی پڑھا دی تھی کہ پسِ پردہ بادشاہ اصلی بادشاہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ہوتا ہے جسے تخت پر بٹھا دیا جائے سو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق وزیرِ موصوف نے اصل بادشاہ کی جگہ اپنا منظورِ نظر شخص لانے کیلئے کمر کس لی۔

ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہورہا تھا بلکہ کٹھ پتلی وزیر اور پسِ پردہ طاقتور بادشاہ دونوں جانتے تھے کہ اقتدار کی یہ رسہ کشی دہائیوں سے چلتی آرہی ہے اور اس میں زیادہ تر پلڑا اصل بادشاہ کا ہی بھاری رہتا ہے، کٹھ پتلی وزیر کا نہیں کیونکہ سپاہ کی کمان اس کے پاس ہوا کرتی ہے۔

معاملہ رفع دفع بھی ہوسکتا تھا لیکن بادشاہ سلامت کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچنے کی وجہ بغاوت کی بو تھی۔ اختلافات کسی کو بھی ہوسکتے ہیں اور اختلافات پر بات چیت بھی کی جاسکتی ہے لیکن کٹھ پتلی وزیر کی یہ جرأت؟ بادشاہ سلامت نے وزیرموصوف کو سبق سکھانے کیلئے وہی کھیل شروع کردیا جو ملک کے لوگ برسوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔

حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس ملک کے عوام اپنے وطن کی حفاظت پر مر مٹنے کیلئے تیار تو رہتے تھے لیکن اقتدار کی رسہ کشی کے پسِ پردہ عوامل کو جانتے بوجھتے نظر انداز کردیا کرتے تھے۔ یوں برسہا برس سے ایک کے بعد دوسرے اصلی بادشاہ سلامت اور کٹھ پتلی کے مابین اقتدار کا کھیل طویل عرصے سے جاری و ساری چلا آرہا تھا اور اسے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔

لوگوں کو یہ کہہ کر بے وقوف بنایا جارہا تھا کہ من موجی سلطنت کے تین اور بعض صورتوں میں چار ستون ہوتے ہیں۔ ایک سیاستدان جن کو قانون کا لکھاری کہا جاتا تھا اور جو ملک کیلئے اپنی مرضی سے قانون لکھتے تھے جو ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکے یعنی سیاستدانوں کیلئے، عوام کیلئے نہیں۔

سلطنت کا دوسرا ستون قاضی کا نظام تھا جو قانون پر کبھی عملدرآمد نہیں کرتا تھا، وہ قانون پر عملدرآمد اسی صورت میں کرتا تھا جب سیاستدانوں کو براہِ راست اور خود ان کو یعنی قاضیوں کو بالواسطہ فائدہ پہنچتا ہو جبکہ سلطنت کا تیسرا ستون اس ملک کے ادارے تھے جو “دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے” کی حکمتِ عملی اپنائے ہوئے تھے۔ اپنے مفادات سب کیلئے مقدم تھے تاہم ملکی مفادات پر کوئی غور نہیں کرتا تھا۔

ایک غیر رسمی نظرئیے کے تحت سلطنت کا چوتھا ستون خبر رساں اداروں کو قرار دیا جارہا تھا جو عوام کو طرح طرح کی جھوٹی سچی خبریں پہنچا کر معمولی سی باتوں پر حواس باختہ اور بڑی بڑی دلدوز خبروں کو معمولی بنا کر بے فکر رہنے پر مجبور کرتے تھے۔

یہ سب کے سب اپنے مفادات کیلئے عوام کے منہ کا نوالہ چھین رہے تھے۔ انہیں بے روزگار کر رہے تھے۔ ان کے بچوں کو منشیات کا زہر پلانے والے موت کے سوداگروں کو آزاد چھوڑ کر آنے والی نسلوں تک کو غیر محفوظ بنا رہے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کو فکرِ معاش میں کھپا کر ان کی فکری آزادی، وطن سے محبت اور ایمان کی طاقت کو کمزور کر تے جارہے تھے۔

سب کے سب عوام کو دیمک کی طرح چاٹتے جارہے تھے اور پھر وہ دن بھی آگیا جب کٹھ پتلی وزیر کو برطرف کرنے کیلئے ادارہ جاتی طریقہ کار اپنایا گیا جسے تحریک کا نام دیا گیا۔ سیاستدانوں نے جس کٹھ پتلی وزیر کو ووٹ دے کر اپنے سروں پر بٹھایا تھا، اسی کو ووٹ دے کر اتار بھی دیا گیا۔ کہا گیا کہ تحریک کامیاب اور وزیرِ موصوف ناکام ہوگئے ہیں اور پھر اقتدار کی مسند پر ایک اور وزیر کو براجمان کردیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اب آپ بادشاہ سلامت ہیں، جو چاہیں کیجئے۔ 

نئے وزیرِ موصوف پرانے کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار تھے کیونکہ انہیں اپنی حدود و قیود کا علم تھا اور وہ کبھی کبھی اصل بادشاہ سلامت کو خوش کرنے کیلئے خاکی لباس بھی زیبِ تن فرما لیا کرتے تھے، اس طرح نیچے کی سپاہ کا دل بھی خوش ہوجایا کرتا تھا کہ بادشاہ سلامت (وزیرِ موصوف) نے ہماری وردی پہن رکھی ہے۔ پتہ نہیں انہیں یہ سب دیکھ کر اچھا کیوں لگتا تھا؟

دوسری جانب پرانے وزیر موصوف اقتدار سے تو محروم ہوئے ہی، انہوں نے براہِ راست اقتدار سے محرومی کا الزام اصل بادشاہ سلامت پر لگانے کی بجائے فرمایا کہ غیر ملکی عناصر نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی اور ملکی سیاستدان ان کے ساتھ مل گئے۔ میں اقتدار سے الگ ہوا ہوں تو اب پہلے سے زیادہ خطرناک ہوں۔بقول غالبؔ: اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا؟

اب یہ معزول کٹھ پتلی وزیر، نئے وزیرِ موصوف اور اصل بادشاہ سلامت کون تھے؟ اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ آج کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا معزول کٹھ پتلی وزیر واقعی پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں؟ کیا وہ اپنا اقتدار نئے وزیرِ موصوف سے واپس لینے میں کامیاب ہوسکیں گے؟ آپ کا کیا کہنا ہے؟ ایک رائے تو بنتی ہے۔ وقت نکال کر دے دیجئے گا۔

Related Posts