اصل تبدیلی کون لائے گا ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کے معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل پر جب بھی بات ہو تو ایک چیز ہمیشہ زیر بحث آتی ہے اور وہ ہے تبدیلی، کہا جاتاہے کہ ملک کے معاشی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہےاور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے اور یہ بازگشت بھی سنائی دیتی ہے کہ ملک کے موجودہ نظام کو بھی تبدیل کیا جائے۔

ماضی میں کئی لوگ تبدیلی کا نعرہ لگاکر اقتدار میں آئے لیکن موجودہ حکومت کا تو بنیادی منشور ہی تبدیلی تھا جس کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی ۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کس حد تک تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئی اس سے قطع نظر صرف تعلیم کا شعبہ دنیا میں حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

آج اقوام عالم کی ترقی کا راز ان کے نظام تعلیم میں مضمر ہے، ترقی یافتہ ممالک کے سائنسدانوں، معاشی ماہرین، صنعتکاروں اور ماہرین عمرانیات نے اپنے ممالک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایسے نام کیوں پیدا نہیں کرتا جو معاشرے میں ترقی کی بنیاد رکھ پائیں، ہمارا نظام تعلیم ناکام ہونے کے کئی اسباب ہیں تاہم ان میں سے دو بنیادی عوامل میں سے پہلا اساتذہ کی قابلیت اور دوسرا تعلیم دینے کا طریقہ کار ہے۔

جب تک تعلیم دینے والا استاد خود تعلیم کے اسرار و رموز اور اغراض و مقاصد سے واقف نہیں ہوگا تب تک وہ اچھی تعلیم کیونکر دے پائے گا۔تعلیم کے حقیقی اغراض و مقاصد سے نابلد استاد چاہے کسی بھی عمارت میں موجود ہو یا کسی بھی ٹیکنالوجی کا سہارا ہو تب بھی وہ اچھے شاگرد پیدا نہیں کرسکتا لیکن اس کے برعکس اسرار و رموز سے واقف استاد کھلے آسمان تلے ٹاٹ پر بیٹھنے والوں میں سے بھی دنیا کے بہترین شاگرد ، بہترین سائنسدان، معیشت دان ،صنعتکاراور تخلیق کار پیدا کرسکتا ہے۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ملک میں اساتذہ کی خود اپنی قابلیت اور تخلیقی صلاحیتیں بہت محدود ہیں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک کے معمار بنانے والے خود پاکستان کی تاریخ سے بھی ناواقف ہوتے ہیں ، نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم کی عمارت کا سب سے اہم ستون یعنی استاد اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑا ہونے میں ناکام دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے ہماری تعلیم کی پوری عمارت جھول رہی ہے۔

نظام تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اساتذہ سازی کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے اساتذہ کو بنانا ہے، ان کی تربیت سازی کرنی ہے اور ان کو اچھے استاد بنانا ہے جو ناصرف اپنے مضمون میں ماہر ہوں بلکہ ان میں شخصیت سازی اورتخلیق کاری کا عنصر بھی موجود ہو۔

اقوام متحدہ کے ایک سروے کےمطابق پاکستان میں 80 سے 90فیصد اساتذہ میں تخلیق کاری اور شخصیت کاری کے عوام مقفود ہیںحتیٰ کہ یونیورسٹی کے لاتعداد پروفیسرز بھی اس حوالے سے لاعلم پائے جاتے ہیں۔

اس ضمن میں حکومت کواساتذہ کی تربیت سازی کرنی چاہیے اور مرحلہ وار پرائمری، سکینڈری اور اے اور او لیول پر اساتذہ کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے ۔

اساتذہ کیلئے نصاب تشکیل دیکر شخصیت سازی اور دوسرے حصے میں طلبہ کی تخلیقی صلاحتیں اجاگر کرنے کیلئے مضامین شامل ہوں اور ایک طالب علم کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے حوالے سے تربیت کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اساتذہ کو عزت دینے کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے، نجی اسکولوں میں اساتذہ کی تنخواہ ہے جس میں اضافہ ہونا چاہے اور معاشرے کو اساتذہ کا احترام یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

وطن عزیز میں اس وقت چند موضوعات کو یاد کرکے لکھنے کے بعد استاد آپ کو نمبر دے دیتا ہے ، یہ طریقہ کار ایک ایک طالب علم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے اور طالب علم صرف یاد کرنے پر توجہ مرکوز کرلیتا ہے اور یہ طریقہ کار طلبہ میں تخلیق کار کو پروان چڑھانے کے بجائے محض یادداشت کا امتحان بن جاتا ہے۔جب ایک اپنے نقطہ نظر سے کسی چیز کے بارے میں سوچے گا نہیں تو وہ بچہ صرف یاد کرنے تک محدود رہے گا۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خود اپنی صلاحیتیوں سے کچھ الگ طریقے سے لکھنے والے طلبہ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اس طالب علم کو مروجہ طریقہ کاری کی پیروی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر اپنی صلاحیتوں سے نئے چیزیں تخلیق کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ایک طالب علم کی شخصیت سازی پر بھی توجہ دی جانی چاہیے ۔

تعلیم کا مقصد صرف روزگار کا حصول نہیں ہے بلکہ معاشرے کو ذہنی صحت مند ، ایماندار، سچا اور باصلاحیت افراد دینا بھی تعلیم کا مقصد ہے اور اگر نظام تعلیم یہ اغراض و مقاصد پورے کرے تو معاشرہ خود بخود تبدیل ہوجائیگا۔

نہ ہمیں سیاست کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی نہ ہمیں  معیشت کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی بلکہ آہستہ آہستہ معاشرے میں خود بخود تبدیلی پیدا ہوگی لیکن اگرہم اپنا نظام تعلیم تبدیل نہیں کرتے تو ہم اس طرح تبدیلی کا الاپ تو کرتے رہیں گے نہیں حاصل حصول کچھ نہیں ہوگا۔

Related Posts