لازمی سروسز کے ملازمین لاک ڈاؤن کے دوران گاڑیوں کی مرمت کہاں سے کرائیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لازمی سروسز کے ملازمین لاک ڈاؤن کے دوران گاڑیوں کی مرمت کہاں سے کرائیں؟
لازمی سروسز کے ملازمین لاک ڈاؤن کے دوران گاڑیوں کی مرمت کہاں سے کرائیں؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لاک ڈاؤن کے باعث کراچی کے لاکھوں افراد کے گھروں میں فاقے ہو رہے ہیں۔ ان میں سفید پوش افراد بھی شامل ہیں جو کہیں ہاتھ پھیلانے کو تیار نہیں  جبکہ حکومت کی جانب سے اب تک مستحقین کو امداد نہیں مل رہی ہے۔

مستحقین کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے سندھ حکومت نے تھوڑا بہت کام شروع کر دیا ہے مگر وفاقی حکومت کی طرف سے رجسٹریشن ہی شروع ہوئی ہے۔ اگر کوئی امداد کر رہا ہے تو وہ فلاحی ادارے ہیں تاہم  فلاحی ادارے بھی ایک دوسرے سے باہمی رابطے میں نہیں۔

فلاحی اداروں کی امداد اور حکومت کا کردار

 حکومتِ سندھ کو چاہیے تھا کہ تمام این جی اوز کو اکٹھا کر کے ایک پلیٹ فارم تیار کرتی اور انہیں مختلف یونین کمیٹیز میں ذمہ  داریاں سونپ دی جاتیں جس سے یہ ممکن ہو جاتا کہ کوئی ایک خاندان ایک سے زائد بار راشن وصول نہ کر پاتا اور ہر یونین کمیٹی میں راشن پہنچ جاتا۔

اس کے برعکس صوبائی حکومت نے فلاحی اداروں کو آزاد چھوڑ دیا جس سے یہ ہوا کہ اپنی مرضی سے جس کا جہاں جی چاہا، اس نے راشن پہنچا دیا ۔اس طرح ایک ہی یونین کمیٹی میں ایک ہی خاندان کو کئی فلاحی ادارے راشن دے چکے ہیں مگر ایسے کئی علاقے ہیں جہاں اب تک راشن نہیں پہنچا۔

لازمی سروسز کے ملازمین کا مسئلہ

لاک ڈاؤن کے دوران لازمی سروسز کے اداروں میں کام کرنے والے جن میں پیرا میڈیکل اسٹاف، ڈاکٹرز، صحافی، فوٹو گرافرز، کیمرہ مین،پولیس ملازمین، رینجرز، میڈیکل اسٹورز اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے شامل ہیں، آمدورفت کے لیے اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ 

ایسے افراد کی گاڑیوں میں کبھی کبھار خرابی بھی ہو جاتی ہے تاہم ان لازمی سروسز سمیت دیگر شعبہ جات میں کام کرنے والوں کو سخت اذیت کا سامنا اُس وقت ہوتا ہے جب گاڑی خراب ہونے کی صورت میں لاک ڈاؤن کے احکامات کے باعث کوئی موٹر مکینک دستیاب نہیں ہوتا۔

پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات

سندھ حکومت کے کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی قیادت میں  وفاق کے لاک ڈاؤن نہ کرنے کے فیصلے کو نظر انداز کرنا اور بر وقت لاک ڈاؤن کرنا پاکستان سمیت دنیا بھر میں سراہا گیا۔ 

اس پذیرائی  کو حکومتِ سندھ سنبھال کر رکھنا چاہتی ہے کیونکہ سندھ حکومت پر گزشتہ 12برسوں سے اس پارٹی کی حکومت قائم ہے جسے جمہوریت پسند جماعت کہا جاتا ہے، تاہم پرویز مشرف کی حکومت کے بعد سے پیپلز پارٹی کی جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں سب کو بدعنوان کہا گیا۔

 پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر سنگین نوعیت کی کرپشن کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔بے نامی اکاؤنٹس، پاور سیکٹر  اور ترقیاتی کاموں میں بھاری کرپشن سمیت تقریباً ہر معاملے میں سندھ حکومت پر بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے جو اَب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ 

سندھ حکومت پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے محکمۂ صحت کا مختص فنڈ ایسے ہسپتالوں  کو جاری کیا جن کا دراصل کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ایسے ہسپتالوں کو آپ گھوسٹ ہسپتال کہہ سکتے ہیں جو صرف کاغذوں پر موجود تھے جبکہ ایسے سنگین الزامات سے پارٹی ملکی سطح پر بے حد بدنام ہوئی۔

  بدنامی کے بعد نیک نامی 

گزشتہ بدنامی کے برعکس  کورونا وائرس کے خلاف میدانِ عمل میں آ کر پیپلز پارٹی نے پہلی بار قومی و بین الاقوامی سطح پر نیک نامی سمیٹی جسے کچھ وقت سنبھال کر رکھنے کی ضرورت پیش آئی تاہم  پیپلز پارٹی نے بغیر منصوبہ بندی کیے لاک ڈاؤن کا اعلان کر ڈالا جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ 

صوبہ سندھ میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص عوام لاک ڈاؤن سے شدید متاثر ہوئے۔  3 کروڑ کی آبادی رکھنے والے شہرِ قائد کے مزدور پیشہ اور چھوٹے تاجروں کو شدید مالی نقصان کا سامنا ہے جبکہ لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ یومیہ اجرت کمانے والے لاکھوں افراد متاثرہوئے۔

مسئلے کا حل

صوبائی حکومت کو چاہیے کہ اب جبکہ لاک ڈاؤن کے 15 اور تمام دکانیں بند ہوئے 22 روز گزر چکے ہیں، کم از کم ایسی دکانیں اور کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے جس سے لازمی سروسز دینے والے ملازمین کی آمد و رفت ممکن ہو سکے۔

ملازمین کی آمدورفت ممکن بنانے کے لیے  سب سے اہم موٹر مکینکس ہیں جن کے گیراج بند ہونے کے باعث کئی گاڑیاں مرمت کی منتظر ہیں اور گاڑیاں کھڑی ہونے سے ان لازمی سروسز فراہم کرنے والے ملازمین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

مرمت کا کام کرنے والے موٹر مکینکس کے گیراج یا دکانوں پر عام طور پر رش نہیں ہوتا اور متعلقہ ایک تا 4 افراد ہی اپنی گاڑی کی مرمت کے لیے بیک وقت موجود ہوتے ہیں جس سے بلا وجہ رش کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ 

جن لوگوں کی گاڑیوں میں زیادہ کام ہوتا ہے وہ وہاں بیٹھتے نہیں اور گاڑی کی واپسی کا وقت معلوم کر کے اُسی وقت آتے ہیں جب انہیں بلایا جاتا ہے۔ حکومت کو تمام گیراج اورورکشاپس کے ساتھ ساتھ اسپیئر پارٹس اور آئل چینج سمیت اِس شعبے کی تمام دکانوں کو فوراً کھول دینا چاہئے۔ 

یہ اقدام اِس لیے ضروری ہے  تاکہ لازمی سروسز فراہم کرنے والے اداروں کے ملازمین، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف، صحافی، فوٹو گرافرز، کیمرہ مین، پولیس اور رینجرز کے اہلکار اپنی ملازمت پر آمدورفت  جاری رکھ سکیں۔

Related Posts