غیرمعمولی کانفرنس: کیا پیغامات دئیے گئے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

غیرمعمولی کانفرنس: کیا پیغامات دئیے گئے ؟
غیرمعمولی کانفرنس: کیا پیغامات دئیے گئے ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

واضح اور غیر مبہم موقف، آج ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس غیر معمولی تھی۔ اس میں کئی اہم پیغامات دئیے گئے، بعض باتوں کی وضاحت کی گئی، اپنا موقف تفصیل سے بیان کیا گیا،چند ایک معاملات پر جو کنفیوژن تھا، وہ بھی دور کر دیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ کہنا چاہیے کہ فورسز کا موقف آفیشل سطح پر بہت اچھے سے سامنے آ گیا۔

اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ کا موقف سامنے نہیں آیا یا فلاں چیز پر ابہام ہے۔ آج کی پریس کانفرنس کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔

پراجیکٹ عمران خان بند ہوگیا

ایک بہت اہم بات واضح کر دی گئی کہ پراجیکٹ عمران خان مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔ ا سٹیبلشمنٹ نے ادارہ جاتی سطح پر اپنی اس غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے مکمل طور پر اپنی پچھلی سوچ اور رائے سے رجوع کر لیا ہے۔آسان الفاظ میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رومانس ختم ہوگیا۔

دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں عمران اسٹیبلشمنٹ تعلق اپنے بہترین دور میں گزر رہا تھا، عمران حکومت کے ابتدائی دو برسوں میں یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ دس سالہ پراجیکٹ ہے اور دو ہزار تیئس کا الیکشن بھی عمران خان ہی جیتیں گی، اپوزیشن یعنی تب کی پی ڈی ایم کے پاس دو ہزار اٹھائیس سے پہلے کوئی چانس نہیں۔

اب یہ سب ختم ہوچکا۔ چھ ماہ پہلے ہی اس کا اعلان ہوچکا تھا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے بعض لوگ اورگاہے عمران خان بھی اشارہ دے د یتے کہ کسی سطح پر مذاکرات کا عمل چل رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر نہ سہی، جزوی طور پر ان سے ہمدردی رکھتی ہے۔

بعض سازشی تھیوری رکھنے والے تو مسلسل یہ کہتے رہے کہ مارچ اپریل سے اب تک جو کچھ ہوا، وہ دراصل عمران خان کو دو تہائی اکثریت دینے کا بہانہ ہے اور یہ سب ایک طرح کی نورا کشتی ہے، مقصد عمران کو مقبول بنا کر الیکشن جتوانا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بچکانہ سازشی نظریہ بھی آج اپنی موت مرگیا۔

چہرے کی تبدیلی سے پالیسی نہیں بدلے گی

ایک چیز جو بڑی عمدگی سے قوم کو بتائی اور سمجھائی گئی ہے کہ موجودہ پالیسی کسی فرد واحد کی نہیں بلکہ ادارہ جاتی سوچ ہے اور اس پر تفصیلی غوروخوض کے بعد رائے بنائی گئی۔ ڈی جی آئی ایس آئی کا ساتھ بیٹھنا صورتحال کی گھمبیرتا کے ساتھ سنجیدگی اور فکری یکسوئی کو ظاہر کر رہا تھا۔

جنرل ندیم فوج کی ادارہ جاتی پوزیشن کو ظاہر کر رہے تھے۔ اس لئے عمران خان یا تحریک انصاف کے تمام حلقوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ موجودہ چیف کے جانے اور کسی نئے کے آنے سے صورتحال میںتبدیلی نہیں آئے گی۔ انہیں اس حقیقت کو مان کر آگے چلنا چاہیے۔

عمران بیانیہ کی مکمل نفی

دونوں اعلیٰ سطحی افسران نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں عمران خان کے مکمل سیاسی بیانیہ کوغلط قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔جو انہوں نے کہا، اس کا مفہوم یہ تھا کہ سائفر کے حوالے سے عمران خان نے سیاسی کھیل کھیلا، جھوٹا بیانہ گھڑا، حقیقت ایسی نہیں، سائفر پر چیف کی وزیراعظم عمران سے بات ہوچکی تھی، ستائیس مارچ کو جب خان نے جلسے میں کاغذ لہرایا تو ہم (اسٹیبلشمنٹ)حیران رہ گئے ، وغیرہ وغیرہ۔

انہوں نے یہ بھی جتایا کہ بطور وزیراعظم عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے توقعات غلط اور غیر حقیقت پسندانہ تھیں، وہ اداروں کو اپنے آئینی کردار سے تجاوز کر کے غیر آئینی رول ادا کرنے کا کہہ رہے تھے وغیرہ وغیرہ۔

غیر سیاسی ہونے کا اعلان

اس بات پر زور دیا گیا کہ فوج بطور ادارہ اب غیر سیاسی رہے گی، اس کے لئے انگریزی اصطلاح Apoliticalاستعمال کی گئی۔ گول مول الفاظ میں اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا گیا اور یہ کہ اب ویسی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، ادارہ غیر سیاسی رہے گا، سیاستدان ہی سیاست کریں گے۔ جو بات کھل کر نہیں کہی گئی، وہ اگر کہی جاتی تو یہ ہوتی کہ اگر ہم غیر جانبدار نہ ہوتے تو سترہ جولائی اور سولہ اکتوبر کو تحریک انصاف ضمنی الیکشن نہ جیت پاتی اور پنجاب حکومت بھی انہیں نہ ملتی۔

”اب بہت ہوگئی“ کا اعلان

دونوں افسران نے عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے حوالے سے ادارہ کی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے طرح طرح کے الزامات لگائے، جھوٹ بولے۔ راتوں کو ملاقاتیں کیں اور دن کو غدار کہا۔ کبھی جانور، کبھی نیوٹرل، میر جعفر، میر صادق وغیرہ وغیرہ کہا۔ اس نکتے پر زور دیا کہ ہم نیوٹرل نہیں بلکہ غیر سیاسی ہوئے ہیںیعنی اے پولیٹیکل۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ جب جھوٹ مسلسل بولا جا رہا ہو تو سچ کی خاموشی مناسب نہیں۔ یہ بھی عمران خان پر حملہ ہی تھا۔

یہ بھی کہا گیا کہ مارچ میں وزیراعظم نے چیف کو غیر مشروط توسیع ملازمت کی پیش کش کی تھی۔ یہ ایسی بات ہے جس پر عمران خان کو جواب دینا چاہیے۔ مدت ملازمت میں توسیع کی بات پہلی بار سامنے آئی اور اس پر عمران خان کو اظہار خیال کرنا چاہیے۔

مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان

اس پریس کانفرنس سے پتہ چلا کہ ادارہ جاتی طور پر یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب غیر سیاسی اور کسی حد تک لو پروفائل میں رہے گی۔ سول حکومت کا کام کرنے دیا جائے گا،ضرورت پڑنے اور مدد مانگنے پر ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام قائم ہوگا اور کسی جتھے کو عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یعنی بائی بک چلنے کا اظہار۔

ایک لحاظ سے یہ عمران خان کے لانگ مارچ اور ان کے جارحانہ ایجنڈے کو وارننگ تھی کہ حکومت گرانے کی کوشش برداشت نہیں ہوگی۔ تاہم یہ بھی صاف الفاظ میں کہا گیا کہ پرامن جمہوری سیاسی احتجاج کرنے کی آئین اور قوانین اجازت دیتے ہیں۔ ایک صحافی کے سوال پر یہ بھی کہا کہ مغربی دنیا میں بھی سیاسی سرگرمیاں اور سیاسی احتجاج چلتا رہتا ہے، برطانیہ میں تین چار حکومتیں بدل چکی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

میرے حساب سے یہ صاف بتا دیا گیا ہے کہ عمران خان کتنا ہی بڑا لانگ مارچ اجتماع یا دھرنا کر لیں، انہیں حکومت تبدیلی کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی مدد یا تعاون نہیں ملے گا، بلکہ مخالفت ہی کی جائے گی۔اب یہ عمران خان پر ہے کہ وہ اس پیغام کو کس حد تک سمجھتے ہیں اور اپنی پالیسی میں کیا تبدیلی لے آتے ہیں؟

سرخ لکیر عبور کر لی گئی ہے

یوں لگا جیسے اسٹیبلشمنٹ کے خیال میں عمران خان نے سرخ لکیرعبور کر لی ہے۔ دونوں ڈی جی صاحبا ن کا پریس کانفرنس میں آنا بذات خود غیرمعمولی ا قدام ہے۔ مختلف ایشوز پر صاف اور کھری کھری باتیں بھی سنائی گئیں۔ یوں لگا جیسے ارشد شریف کے قتل پر عمران خان کا موقف اسٹیبلشمنٹ کے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کن رہا۔ عمران خان سے شائد وہ یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ وہ اس سانحہ کو ان کے خلاف استعمال کرے گا۔

آج کی پریس کانفرنس میں بعض پیغام عمران خان کےلئے تھے ۔ ان میں سے ایک یہ بھی کہ ہم نے تمہارے راز نہیں کھولے، لیکن اگر تم الزام تراشی سے باز نہ آئے توپھر وہ سب کچھ باہر آ سکتاہے۔ عمران خان کی ملاقاتوں کے حوالے سے اشارہ دیا گیا ، ان کے شواہد بھی ظاہر ہے ضرورت پڑنے پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خان نے پیغام اچھی طرح موصول کر لیا یا وہ اسے انڈر اسٹیمیٹ کر رہے ہیں؟

ارشد شریف مرڈر کیس

پریس کانفرنس کا خاصا حصہ ارشد شریف مرڈر کے گرد گھومتا رہا۔ مجھے وہ نسبتاً کمزور لگا ، دلائل بھی مضبوط نہیں تھے اور بیانیہ بھی دل کو نہیں لگا۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ یہ بات واضح کرنا چاہتی تھی کہ اس معاملے سے ان کا تعلق نہیں۔ یہ بات قابل فہم ہے۔ آخر اسٹیبلشمنٹ کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک صحافی کو بیرون ملک نشانہ بنائے؟

ارشد شریف ہرگز اتنا خطرناک نہیں بنا تھا کہ اسے ہٹانے کےلئے اتنی اعلیٰ سطح پر کوشش کی جاتی۔ جس ڈاکیومینٹری کا حوالہ دیا جارہا ہے، اس میں ایسے کیا ثبوت آجانے ہیں؟ اس سے کیا فرق پڑے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ پاکستانی سیاست میں کسی کی قابل اعتراض ویڈیو ریلیز کر دو، تب بھی اس کی حمایت میں ذرا برابر بھی فرق نہیں پڑے گا۔

سوال مگر یہ ہے کہ اس سانحہ کی ذمہ داری تحریک انصاف یا ارشد شریف کے قریبی لوگوں پر ڈالنے کی بھی تک نہیں بنتی۔ سلمان اقبال کی طرف اشارے کی بھی کوئی مضبوط دلیل نہیں۔ یہ بھی کمزور استدلال ہے کہ ارشد شریف کو کسی سازش کے تحت باہر بھیجا گیا، ورنہ اسے یہاں خطرہ نہیں تھا۔ کیسے خطرہ نہیں تھا؟ سولہ ایف آئی آرز ملک کے مختلف شہروں میں اس کے خلاف درج ہوئیں۔ ان میں ارشد شریف کو گرفتار بھی کیا جا سکتا تھا۔

پاکستان میں پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کا مطلب ذلت، خواری، تشدد اور کئی دنوں کی پریشانی ہے۔ارشد شریف کی نوکری بھی ختم ہوئی، اسے دھمکیاں بھی مل رہی تھیں، یہ سب کچھ اسے باہر جانے کا فیصلہ کرانے کے لئے کافی تھا۔ ارشد شریف کو چھوڑئیے ، آخر صابر شاکر بھی تو باہر چلا گیاہے۔ چلیں اسے ہی واپس لے آئیے۔

نان پروفیشنل صحافتی رویہ

پریس کانفرنس چونکہ ہر چینل نے براہ راست دکھائی، ڈی جی آئی ایس آئی کی وجہ سے ہر ایک کی دلچسپی بھی زیادہ تھی ۔ اس لئے پوری پریس کانفرنس دیکھی گئی، مختلف میڈیا ہاوئسز کی نمائندگی تھی، کئی سینئر صحافی بھی موجود تھے۔ سوالات کا معیارمگر زیادہ بہتر نہیں تھا۔ کئی لوڈڈ سوال پوچھے گئے جو صحافتی ضابطوں میں بہت برے سمجھے جاتے ہیں۔ بعض سوالات کے جواب پہلے سے انڈرسٹد تھے، یوں لگ رہا تھا پوچھنے والے نے صرف اپنا چہرہ رجسٹرڈ کرانے کی خاطر بیکار سا سوال پوچھا۔

حیرت ہوئی جب چند ایک سینئرصحافیوں نے بھی اپنے سوالات میں کوئی کام کی بات پوچھنے کے بجائے عمران خان پر چارج شیٹ ہی لگا دی۔ یہ ان کا کام نہیں تھا۔ انہیں تو جینوئن سوال اٹھانے چاہیے تھے۔ نوجوان صحافیوں کے سوالات سے بھی مایوسی ہوئی، نوجوانی میں انقلابی رومانویت زندگی کا خاصہ ہوتا ہے، بندہ نڈر ہو کر سوال بھی پوچھ لیتا ہے۔

افسوس کسی میں یہ جھلک نہیں نظر آئی۔ سلیم صافی کے سوال سے بھی مایوسی ہوئی۔ اتنی تاریخی نوعیت کی پریس کانفرنس، اتنے اہم ایشو اور وہ اپنے ذاتی ڈکھڑا لے کر بیٹھ گئے۔ ان کارویہ نان پروفیشنل تھا۔

ان دونوں ڈی جی صاحبان کی اپنی گفتگو البتہ بھرپور تھی۔ جنرل ندیم کا پہلا میڈیا انٹرایکشن تھا، مگر وہ اعتماد سے اچھا بولے ۔ جنرل بابر افتخار کا لہجہ شائستہ اور زبان ادبی ہے،اردو زبان پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔

اس پریس کانفرنس کا سب سے اہم پیغام یہ تھا ، اگرچہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا گیا، وہ یہ کہ عمران خان کی کہانی ختم ہوئی، وہ اب اقتدار میں نہیں آ سکتا، فوری طور پر تو کسی بھی صورت میں نہیں، اس کا لانگ مارچ بھی غیر نتیجہ خیز اور ناکام رہے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پیغام بذات خود متنازع ہے اور یہ اے پولیٹیکل ہونے کے تقاضوں سے میچ نہیں کرتا۔ بس یہی پاکستانی سیاست کے پیچیدہ مسائل اور مخمصے ہیں۔ یہاں وہ کرنا پڑتا ہے جو نہیں کرنا چاہیے اور جو کرنا چاہیے، بہت بار وہ نہیں کیا جا سکتا۔

Related Posts