امریکہ کے ٹاپ سیکرٹ ڈاکیومنٹس ڈی کلاسیفائی (پبلک کر نے)کے بعد پاکستان کی قومی تاریخ کے کئی خفیہ گوشے اور پرتیں سامنے آئی ہیں، بعض ایسی کڑیاں جو مسنگ تھیں، وہ جڑ گئیں۔ سیاست وتاریخ کے طالب علموں کو یہ سب چیزیں دیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا ہوں گی۔
ان ٹاپ سیکرٹ پیپرز میں امریکی سفارت خانے کے خفیہ ٹیلی گرام، اسٹیٹ آفس کے خفیہ خطوط وغیرہ شامل ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح امریکی سفارت کار حکمرانوں، وزرا ، اہم سیاستدانوں، طاقتور عسکری افسران سے ملاقاتیں کرتے رہے، ان سے اندرونی معلومات اور مستقبل کے ممکنہ لائحہ عمل کا اندازہ لگاتے اور پھر اپنے تجزیے سمیت ان اطلاعات کو واشنگٹن بھیجتے رہے۔
یہ کام پاکستان میں ابتدائی برسوں سے شروع ہوگیا تھا۔ اکتوبر 1954 میں لندن میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن ایک خفیہ ٹیلی گرام بھیجا جس میں بتایا کہ پاکستان کے طاقتور ترین سول آفیسر سکندر مرزا نے امریکی سفارت کار کو بتایا کہ امریکہ وزیراعظم محمد علی کی کمر کسنے کے لئے معاشی اور فوجی امداد سخت کرے اور یہ امداد اس یقین دہانی پر دی جائے کہ مرکزی حکومت دانشمندانہ رویہ اپنائے گی۔ سکندرمرزا نے امریکیوں کو مشورہ دیا کہ ایسا کرنے سے پاکستان وزیراعظم چودھری محمد علی مثبت ردعمل کا اظہار کرے گا۔’
ذراتصور کریں کہ پاکستان کا ایک اہم شخص جو تب مشرقی پاکستان کے گورنر اور پھرمرکزی وزیرداخلہ کے طور پر کام کرتا رہا اور صرف سال بعد پاکستان کا گورنر جنرل بن گیا، وہ صرف پاکستانی وزیر اعظم کو کسنے اور تنگ کرنے کے لئے امریکیوں کو یہ مشورے دے رہا ہے کہ وہ امداد کے لئے شرطیں لگائیں۔ جب اتنے اہم منصب پر فائز لوگوں کی وفاداری کا یہ عالم ہو تو پھر تباہی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اس سے ایک سال پہلے یعنی اپریل1953 میں کراچی کی امریکی ایمبیسی نے واشنگٹن ٹاپ سیکرٹ خط بھیجا جس میں اپنا تجزیہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا گیا:”اس وقت حکومت پاکستان سول سرونٹس کے ایک گروپ کے زیراثر ہے جن کو آرمی کی حمایت حاصل ہے، اس ٹولی میں سکندرمرزا، اختر حسین اور آغاہلالی شامل ہیں، کیبنٹ سیکرٹری عزیر احمد کے علم کے بغیر سیکریٹریٹ کی سطح پر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ آپ کو ایوب سے گفتگو یاد ہوگی، ایوب نے کہا تھا کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا مگر وہ مرکز کی ”نان سینس“ کو قبول نہیں کرے گا۔“ یاد رہے کہ پاکستان کا پہلا مارشل لا1958میں آیا اور یہ خفیہ خطوط اس سے پانچ سال پہلے کے ہیں، یعنی کھچڑی تب ہی سے پکنا شروع ہوگئی تھی۔
کیا صنعتوں پر 10 فیصد ’سپر ٹیکس‘ لگانے سے مہنگائی کم ہوگی؟