امریکی پاکستان میں کس انداز کی ”مداخلت “کرتے رہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عوام کو اسلحہ رکھنے کی اجازت، جو بائیڈن امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوس
عوام کو اسلحہ رکھنے کی اجازت، جو بائیڈن امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوس

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکہ کے ٹاپ سیکرٹ ڈاکیومنٹس ڈی کلاسیفائی (پبلک کر نے)کے بعد پاکستان کی قومی تاریخ کے کئی خفیہ گوشے اور پرتیں سامنے آئی ہیں، بعض ایسی کڑیاں جو مسنگ تھیں، وہ جڑ گئیں۔ سیاست وتاریخ کے طالب علموں کو یہ سب چیزیں دیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا ہوں گی۔

ان ٹاپ سیکرٹ پیپرز میں امریکی سفارت خانے کے خفیہ ٹیلی گرام، اسٹیٹ آفس کے خفیہ خطوط وغیرہ شامل ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح امریکی سفارت کار حکمرانوں، وزرا ، اہم سیاستدانوں، طاقتور عسکری افسران سے ملاقاتیں کرتے رہے، ان سے اندرونی معلومات اور مستقبل کے ممکنہ لائحہ عمل کا اندازہ لگاتے اور پھر اپنے تجزیے سمیت ان اطلاعات کو واشنگٹن بھیجتے رہے۔

یہ کام پاکستان میں ابتدائی برسوں سے شروع ہوگیا تھا۔ اکتوبر 1954 میں لندن میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن ایک خفیہ ٹیلی گرام بھیجا جس میں بتایا کہ پاکستان کے طاقتور ترین سول آفیسر سکندر مرزا نے امریکی سفارت کار کو بتایا کہ امریکہ وزیراعظم محمد علی کی کمر کسنے کے لئے معاشی اور فوجی امداد سخت کرے اور یہ امداد اس یقین دہانی پر دی جائے کہ مرکزی حکومت دانشمندانہ رویہ اپنائے گی۔ سکندرمرزا نے امریکیوں کو مشورہ دیا کہ ایسا کرنے سے پاکستان وزیراعظم چودھری محمد علی مثبت ردعمل کا اظہار کرے گا۔’

ذراتصور کریں کہ پاکستان کا ایک اہم شخص جو تب مشرقی پاکستان کے گورنر اور پھرمرکزی وزیرداخلہ کے طور پر کام کرتا رہا اور صرف سال بعد پاکستان کا گورنر جنرل بن گیا، وہ صرف پاکستانی وزیر اعظم کو کسنے اور تنگ کرنے کے لئے امریکیوں کو یہ مشورے دے رہا ہے کہ وہ امداد کے لئے شرطیں لگائیں۔ جب اتنے اہم منصب پر فائز لوگوں کی وفاداری کا یہ عالم ہو تو پھر تباہی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اس سے ایک سال پہلے یعنی اپریل1953 میں کراچی کی امریکی ایمبیسی نے واشنگٹن ٹاپ سیکرٹ خط بھیجا جس میں اپنا تجزیہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا گیا:”اس وقت حکومت پاکستان سول سرونٹس کے ایک گروپ کے زیراثر ہے جن کو آرمی کی حمایت حاصل ہے، اس ٹولی میں سکندرمرزا، اختر حسین اور آغاہلالی شامل ہیں، کیبنٹ سیکرٹری عزیر احمد کے علم کے بغیر سیکریٹریٹ کی سطح پر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ آپ کو ایوب سے گفتگو یاد ہوگی، ایوب نے کہا تھا کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا مگر وہ مرکز کی ”نان سینس“ کو قبول نہیں کرے گا۔“ یاد رہے کہ پاکستان کا پہلا مارشل لا1958میں آیا اور یہ خفیہ خطوط اس سے پانچ سال پہلے کے ہیں، یعنی کھچڑی تب ہی سے پکنا شروع ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

کیا صنعتوں پر 10 فیصد ’سپر ٹیکس‘ لگانے سے مہنگائی کم ہوگی؟

حسین شہید سہروردی پاکستان کے نامور سیاستدان گزرے ہیں۔ سہروردی صاحب کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت اچھا اور مثبت تاثر ہے۔ سہروردی پاکستان کے وزیراعظم تھے جب نہر سوئز کا قضیہ پیدا ہوا۔ تب مصر کے صدر جمال ناصر نے نہر سوئز نیشنلائز کر لی تھی، ناصر نے کئی عرب ملکوں کو ملا کر ایک کنفیڈریشن نما اتحاد بھی بنایا تھا۔ سہروردی نے اسی عرب اتحاد پر ایک طنزیہ منفی بیان دیا تھا کہ صفر جمع صفر جمع صفر دراصل صفر ہی رہتے ہیں۔ سہروردی نے پھبتی کسی تھی کہ یہ چھوٹے عرب ممالک چاہے چھ ہوں یا چاہے زیادہ مل کر بھی غیر اہم اور بے وقعت رہیں گے۔ اس کا شدید ردعمل ہوا۔ مصریوں نے طویل عرصہ اس طنز کو یاد رکھا۔

امریکی پیپرز سے پتہ چلا کہ امریکی حسین شہید سہروردی پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔ بارہ اگست 1955کو امریکی سفارت خانہ نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ واشنگٹن کو خفیہ خط لکھا، جس میں بتایا گیا کہ ہم نے سکندر مرزا کو بتا دیا ہے کہ سہروردی کو کابینہ میں شامل کرنے پر امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں۔اسی خفیہ خط میں بتایا گیا کہ امریکی سفارت خانہ کی رائے میں پاکستان کے لانگ ٹرم مفاد میں بہتر ہے کہ تین جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم کر دی جائے، سہروردی کو کابینہ میں شامل کر لیا جائے، انتخابات ملتوی کر دئیے جائیں، ون یونٹ قائم کیا جائے۔

اسی خط میں ایک دلچسپ نکتہ بیان کیا گیا ،” ہمیں اس کا احساس ہے کہ عوامی سطح پر کوئی موقف اختیار نہ کیا جائے، امریکہ کو ملوث نہ کیا جائے۔ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اس قدر اہم ہیں کہ امریکہ کا الگ تھلگ رہنا بھی ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر اگر امریکی سفارت خانہ اگلے دو ہفتے سہروردی کو نظرانداز کرے تو اسے امریکہ کی سرکاری پالیسی کے طور پر دیکھا جائے گا اور یہ اشارہ ہوگا کہ امریکہ سہروردی کی کابینہ میں شمولیت کے خلاف ہے۔ اگر امریکی سفارت خانہ سماجی طور پر سہروردی سے تعلقات قائم کر لے تو اسے امریکہ کی رضامندی تصور کیا جائے گا۔ ہمارے تجزیے کی روشنی میں ہمیں تیسرے فریق کے ذریعے سہروردی کی کابینہ میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ البتہ عوامی پوزیشن کا خیال رکھنا چاہیے۔ سفارت خانے کے افسروں کو سہروردی کے ساتھ ذاتی خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ “

اس خط سے واضح ہوجاتا ہے کہ کس طرح امریکی سفارت خانے اہم طاقتوراور پوٹینشل رکھنے والے سیاستدانوں کو مارک کر کے ان سے تعلقا ت قائم کرتے ہیں اور ان کی کوشش رہتی ہے کہ کابینہ میں امریکہ نواز وزیر شامل ہوں۔ اسی خط میں یہ اہم بات بھی سامنے آئی کہ امریکہ نے پاکستان میں ون یونٹ قائم کرنے کی حمایت کی تھی۔ یاد رہے کہ ون یونٹ کا قیام پاکستان میں ہمیشہ متنازع رہا۔ اس پالیسی کے تحت پورے مغربی پاکستان (آج کے پاکستان)کو ایک صوبہ بنایا گیا تھا۔یہ سولہ سال بعد ختم ہوا۔

امریکی ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس میں ایک دلچسپ خط چار جون 1971کا ہے، اس میں امریکی ڈپلومیٹ بارو(Barrow)نے بتایا کہ مجھے قزلباش کی ڈنر پارٹی میں کونسل لیگ کے نمایاں لیڈر ڈاکٹر جاوید اقبال (فرزند علامہ اقبال)سے گفتگو کا موقع ملا۔ جاوید اقبال نے بتایا کہ اس نے دو ہفتے قبل صدر یحییٰ خان سے ملاقات کی اور اس موقع پر اقتدار کی(مجیب الرحمن کو) منتقلی کی سخت مخالفت کی کیونکہ مشرقی پاکستان میں ابھی بہت سے معاملات طے نہیں ہوئے، اس لئے اقتدار کی منتقلی کا یہ مناسب موقع نہیں۔ اسی خط میں امریکی ڈپلومیٹ نے اپنی رائے بھی ظاہر کی کہ چونکہ ڈاکٹر جاوید اقبال لاہور کے حلقہ تین سے بھٹو سے شکست کھا چکے ہیں، اس لئے اس کی فطری طور پر خواہش ہوگی کہ اقتدار کی منتقلی موخر کر دی جائے۔ (ڈاکٹر جاوید اقبال طویل عرصہ بہت فعال زندگی گزارتے رہے، جسٹس رہے، پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لکھنے پڑھنے میں مصروف رہے، کئی کتابیں لکھیں، اخبارات میں کالم، تقریریں وغیرہ بھی بہت کرتے رہے۔ ان کا یہ پہلو البتہ میرے سامنے پہلی بار آیا کہ انہوں نے بھی بھٹو کی طرح شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار کی منتقلی کی مخالفت کی تھی۔ ع خ)

ایک حیران کن انکشاف ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو جو روایتی طور پر اینٹی امریکہ سمجھے جاتے ہیں اور1970 کے الیکشن میں ان کی جماعت نے امریکا مخالف نعرے لگائے تھے، وہ الیکشن کے بعد اپنے دو قریبی ساتھیوں غلام مصطفی کھر اور حیات شیرپاﺅ کے ہمراہ تب پاکستان میں امریکی سفیر فارلینڈ سے ملاقات کے لئے گئے۔ یاد رہے کہ اس الیکشن کمپین میں حیات خان شیرپاﺅ نے امریکہ اور امریکی سفیر فارلینڈ کے خلاف نام لے کر شدید تنقیدی حملے کئے تھے اورکئی ممالک میں قتل وغارت میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

فارلینڈ نے اپنے خط میں بتایا کہ بھٹو نے واضح کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کا نیا باب شروع کرنا چاہ رہا ہے۔ بھٹو نے کہا کہ اس نے اپنے طور پر الیکشن کمپین میں امریکہ پر زیادہ لفظی حملے نہیں کئے اور امریکی سفیر کے خلاف ذاتی حملے بھی نہیں کئے۔ بھٹو کے مطابق اس نے اپنے تمام رفقا کو ہدایت جاری کی کہ وہ امریکہ کے خلاف توہین آمیز بیانات سے گریز کریں۔ بھٹو نے خوش مزاجی سے اعتراف کیا کہ شیرپاﺅ امریکی سفیرکو رسوا کرنے والے نمایاں لوگوں میں سے ایک ہے، اس میٹنگ میں شیرپاﺅ کی موجودگی ثبوت ہے کہ پرانا باب اب ختم ہوگیا۔ امریکی سفیر نے اپنے اس خط میں تفصیل سے بتایا کہ سوا گھنٹہ جاری رہنے والی ملاقا ت میں بھٹو نے کیا کچھ کہا اور اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا، وغیرہ وغیرہ۔

Related Posts