“پروجیکٹ ایسٹر”(Project Esther)ایک نیا اور خطرناک امریکی منصوبہ ہے، جسے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت یافتہ تنظیم “ہیریٹیج فاؤنڈیشن”(Heritage Foundation)نے اکتوبر2024میں پیش کیا تھا اور اب ٹرمپ انتظامیہ اسے نافذ کرنے پر کمربستہ ہوچکی ہے۔
اس منصوبے کا بنیادی مقصد اسرائیل پر ہونے والی تنقید کو “یہود دشمنی”(Antisemitism)کے طور پر پیش کر کے اسے قانوناً جرم قرار دینا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی نسل کشی (جس میں اب تک53,000سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں) کی کھلی حمایت کرتا ہے، بلکہ اسے تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی آواز بند کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔
پروجیکٹ ایسٹر میں کیا ہے؟
پسِ منظر:7اکتوبر2024کو، جب غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کو ایک سال مکمل ہوا “ہیریٹیج فاؤنڈیشن” نے یہ منصوبہ جاری کیا۔ منصوبے کو بائبل کی ملکہ “ایسٹر” کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، جو کہ یہودیوں کو فارس میں مبینہ قتلِ عام سے بچانے والی شخصیت سمجھی جاتی ہے۔
منصوبے کا اصل مقصد:
اسرائیل کی حمایت کو قانونی تحفظ دینا، اسرائیل پر تنقید کو یہود دشمنی قرار دے کر مسدود کرنا، فلسطین کی حمایت، حماس یا دیگر مزاحمتی گروہوں کے لیے ہمدردی رکھنے کو جرم بنانا اور اظہار رائے، علمی آزادی اور مظاہروں کی حوصلہ شکنی کرنا۔ اس منصوبے میں “حماس” اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو “دہشت گردی” سے جوڑ کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا کے اندر بھی ایسے “یہود دشمن” نظریات پھیل رہے ہیں، جنہیں قانونی طور پر کچلنے کی ضرورت ہے۔
پروجیکٹ2025ءاور ٹرمپ کا کردار:
“پروجیکٹ ایسٹر” دراصل “پروجیکٹ2025″کا ذیلی حصہ ہے، یہ منصوبہ امریکا کی حکومت پر ریپبلکن پارٹی کے کنٹرول کو مکمل اور سخت بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ منصوبہ فاشزم، مذہبی شدت پسندی اور جبر کو فروغ دیتا ہے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان حالیہ ملاقات میں اس منصوبے کی مکمل حمایت پر اتفاق رائے کیا گیا۔ پروجیکٹ ایسٹر آزادیٔ اظہار، سچائی اور فلسطینیوں کی حمایت کو جرم قرار دینے کی مذموم کوشش ہے۔ یہ منصوبہ اسرائیلی نسل کشی کو تحفظ دینے اور دنیا بھر میں مزاحمت کی آوازوں کو خاموش کرنے کا ایک خطرناک ہتھیار ہے۔”
جھوٹ پر مبنی بنیادیں:
اس پروجیکٹ کی ساری بنیادیں جھوٹے دعوؤں پر کھڑی کی گئی ہیں۔ مثلاً پہلا مرکزی نکتہ جو رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے، اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ “امریکا میں فلسطین کی حمایت کرنے والی تحریک، جو اسرائیل، صہیونیت اور خود امریکا کی شدید مخالف ہے، وہ دراصل حماس کی عالمی امدادی نیٹ ورک(HSN)کا حصہ ہے”۔
حالانکہ یہ بات کنفرم ہے کہ ایسی کسی “عالمی حماس امدادی نیٹ ورک” کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے “حماس کی حمایت کرنے والی تنظیمیں(HSOs)جن کا دعویٰ رپورٹ میں کیا گیا، فرضی اور من گھڑت ہیں۔ ان تنظیموں میں سے ایک نمایاں نام “جیوِش وائس فار پیس”(Jewish Voice for Peace)جیسی معروف یہودی امریکی تنظیم کا بھی ہے، جو درحقیقت فلسطینیوں کی حمایت میں پیش پیش رہی ہے۔
دوسرے مرکزی نکتے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ “حماس کا یہ نیٹ ورک ان سرگرم کارکنوں اور مالی مدد کرنے والوں پر مشتمل ہے، جو سرمایہ داری اور جمہوریت کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں”۔
یہ دعویٰ بہت بڑا تضاد لیے ہوئے ہے، کیونکہ خود “ہیریٹیج فاؤنڈیشن” اور اس جیسے ادارے ہی امریکا میں باقی ماندہ جمہوریت کو مٹانے کے درپے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ “سرمایہ داری” اور “جمہوریت” کی اصطلاحات رپورٹ میں کم از کم پانچ مرتبہ دہرائی گئی ہیں، حالانکہ حماس اور سرمایہ داری کا کوئی عملی تعلق نہیں، سوائے اس کے کہ وہ ایک ایسی فلسطینی سرزمین پر حکومت کرتی ہے جو گزشتہ 19ماہ سے امریکی مالی امداد سے جاری اسرائیلی تباہی کا شکار ہے۔ پھر حماس کا سیاسی ڈھانچہ مکمل طور پر جمہوری بنیادوں پر قائم ہے۔ باقاعدہ پارٹی میں مختلف سطح کے انتخابات ہوتے ہیں اور وہ2007ءمیں بھاری عوامی ووٹ لے کر ہی اقتدار میں آئی تھی۔ پھر اسلحہ ساز صنعت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو “نسل کشی” خود سرمایہ داری کی سب سے نمایاں اور خالص ترین شکل بن چکی ہے۔ “پروجیکٹ ایسٹر” دراصل فریب، خوف پھیلانے اور فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کو خاموش کرنے کی ایک سیاسی چال ہے۔ اس میں سچ سے زیادہ جھوٹ اور انصاف سے زیادہ جبر پوشیدہ ہے۔
نسل کشی کے خلاف آواز یا یہود دشمنی؟
“پروجیکٹ ایسٹر” کے مطابق، فلسطینیوں کے خلاف جاری قتلِ عام اور نسل کشی پر احتجاج کرنا بھی “یہود دشمنی” (Antisemitism) کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی بنیاد پر، رپورٹ میں ایک “قومی حکمتِ عملی” پر زور دیا گیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ “امریکی معاشرے سے حماس کی حمایت کرنے والے نیٹ ورک کا مکمل صفایا کیا جائے”۔
رپورٹ کی اشاعت اور تضادات:
یہ رپورٹ اکتوبر2024ءمیں اس وقت شائع کی گئی جب امریکا میں صدر جو بائیڈن کی حکومت تھی، جسے رپورٹ میں “واضح طور پر اسرائیل مخالف” قرار دیا گیا ہے، حالانکہ یہی حکومت غزہ میں جاری نسل کشی میں مکمل طور پر ملوث رہی۔ رپورٹ میں متعدد تجاویز پیش کی گئیں، مثلاً اگر آئندہ حکومت اسرائیل کی زیادہ حمایتی ہو، تو “یہود دشمنی کی وبا” سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
دورِ ٹرمپ میں پروجیکٹ کی عملی صورت:
اس منصوبے کی تیاری کے7ماہ بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری2025ءمیں صدارت سنبھالی اور اس پر عمل درآمد شروع کردیا۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی “پروجیکٹ ایسٹر” کی نصف سے زائد تجاویز پر عمل کر چکی ہے۔ مثلاً امریکی جامعات کو بڑے پیمانے پر وفاقی فنڈنگ سے محروم کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، اگر وہ اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو خاموش نہ کر سکیں۔ امریکا میں قانونی طور پر مقیم افراد کو صرف اس وجہ سے ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیا تھا۔ “پروجیکٹ ایسٹر” کوئی سادہ سیاسی بیانیہ نہیں، بلکہ مکمل ایک صہیونی منصوبہ ہے۔ “پروجیکٹ ایسٹر” کے مصنفین نہ صرف امریکی جامعات پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ “حماس کی حمایت کرنے والے نیٹ ورک” سے متاثر ہیں، بلکہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ “صہیونیت مخالف بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے، خاص کر ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی سطح پر اور یہ سب ’’تنوع، عدل اور شمولیت‘‘ (DEI) جیسے تصورات کے پردے میں چھپا ہوا ہے، جو درحقیقت مارکسی نظریات سے جُڑے ہیں”۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے:
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ “حماس کی حمایت کرنے والا نیٹ ورک اور اس کی ذیلی تنظیمیں امریکی لبرل میڈیا کے ماحول کو استعمال کرنے میں مہارت رکھتی ہیں اور وہ کسی بھی چھوٹے سے احتجاج کو پورے ملک کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہ تنظیمیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خاص طور پرTikTokکو بغیر کسی نگرانی کے استعمال کر رہی ہیں تاکہ اسرائیل اور صہیونیت مخالف پروپیگنڈہ پھیلایا جا سکے”۔
سفارشات: آزادئ اظہار کے خلاف جنگ:
رپورٹ میں ایک وسیع اور خطرناک پلان پیش کیا گیا ہے، جس کے اہداف میں درجہ ذیل امور شامل ہیں: فلسطین کی حمایت کرنے والی تحریک کو جڑ سے ختم کرنا، ان تمام اساتذہ، محققین اور ملازمین کو تعلیمی اداروں سے برطرف کرنا جو فلسطینی مزاحمت یا انسانی ہمدردی کے جذبے سے متاثر ہوں۔ احتجاج کی فضا کو مکمل طور پر ختم کرنا اور ان افراد کو ڈرانا دھمکانا جو فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں تاکہ وہ خود کو کسی تنظیم یا تحریک سے منسلک نہ کریں۔ سوشل میڈیا پر سخت سنسرشپ نافذ کرنا تاکہ “یہود دشمن” مواد پر پابندی کی آڑ میں ہر اُس پوسٹ کو ہٹایا جائے جو اسرائیلی نسل کشی کی مخالفت کرے۔ “ہیریٹیج فاؤنڈیشن” کے نزدیک “یہود دشمنی” کا مطلب صرف “نسل کشی کی مخالفت” ہے، نہ کہ نفرت انگیز یا نسل پرستانہ مواد۔
یہود کی آڑ میں سیاسی ایجنڈے کی تکمیل:
“پروجیکٹ ایسٹر” نے جس “حماس سپورٹ نیٹ ورک” کو امریکی معاشرے کے لیے وجودی خطرہ قرار دیا ہے، اس شور و غوغا کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ معروف امریکی یہودی تنظیمیں اس منصوبے میں شامل نہیں ہیں۔ اخبار “دی فارورڈ”(The Forward)کی دسمبر 2024ءکی رپورٹ کے مطابق:❝ کسی بھی بڑی یہودی تنظیم نے نہ تو اس منصوبے کی تیاری میں حصہ لیا، نہ ہی اس کی علانیہ حمایت کی ہے۔❞ مزید بتایا گیا کہ: ❝ ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے “یہود مخالف نفرت” سے لڑنے کے نام پر بنائی گئی اس اسکیم کے لیے یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے میں بہت محنت کی، لیکن یہ منصوبہ دراصل مسیحی انجیلی گروپوں (ایوینجیکلز) نے تیار کیا۔ ❞
جھوٹی ہمدردی، اصل ہدف: آزادیِ رائے کا خاتمہ:
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ “پروجیکٹ ایسٹر” دراصل صرف ان افراد اور گروہوں کو نشانہ بناتا ہے جو اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں، خاص طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے۔ یہ منصوبہ سفید فام بالادستی(White Supremacy)اور انتہاپسند دائیں بازو کی جانب سے آنے والی حقیقی یہود دشمنی کو مکمل نظرانداز کرتا ہے۔
یہودی رہنماؤں کی کھلی تنقید:
اسی ماہ شائع ہونے والے ایک کھلے خط میں کئی سرکردہ امریکی یہودی رہنماؤں نے خبردار کیا: ❝ کچھ حلقے “یہودیوں کی حفاظت” کا دعویٰ کرتے ہوئے تعلیم، عدلیہ، صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی کو کچلنے کے لیے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ ❞
ٹرمپ حکومت کا حقیقی مقصد کیا ہے؟
اگرچہ بظاہر “پروجیکٹ ایسٹر” کو یہود مخالف نفرت کے خلاف ایک مہم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر ٹرمپ انتظامیہ اس منصوبے کو مخلصانہ نیت سے نہیں، بلکہ ایک عظیم “سفید فام مسیحی قوم پرستانہ ایجنڈے” کے تحت آگے بڑھا رہی ہے۔ صہیونیت اور سام دشمنی (یہود دشمنی) کے الزامات کو درحقیقت ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، تاکہ تنقید کرنے والوں کو خاموش کیا جا سکے، یونیورسٹیوں اور عدالتی نظام کو کنٹرول کیا جا سکے، آزاد میڈیا پر قدغنیں لگائی جا سکیں۔ “پروجیکٹ ایسٹر” درحقیقت ایک خطرناک سیاسی منصوبہ ہے، جسے یہودیوں کی آڑ میں نافذ کیا جا رہا ہے، مگر اس کا ہدف سچ، ضمیر، آزادی رائے اور انصاف کا مکمل گلا گھونٹنا ہے۔ اس کے مکمل نفاذ کے بعد امریکا میں سانس بھی دشوار ہوجائے گا۔