Friday, March 29, 2024

مشیرِ خزانہ کے بیان کی روشنی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی معاشی اہمیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں جب کبھی معاشی اشاریوں کی بات کی جاتی ہے تو موجودہ حکومت مہنگائی اور افراطِ زر کی بجائے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بات کرتی نظر آتی ہے۔

آج بھی مشیرِ خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے فرمایا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے مؤثر معاشی اقدامات کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پایا، مشکل فیصلے کیے اور پی ٹی آئی حکومت کے قیام سے برآمدات کے کاروبار سے وابستہ افراد کو فائدہ ہوا۔

آئیے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کے حالیہ بیان کی روشنی میں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیا ہوتا ہے؟ اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ اور موجودہ دور میں عوام الناس جس معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، کیا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے سے اس میں کوئی کمی آئے گی؟

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیا ہے؟

ہمارا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے کیا مراد ہے؟ بنیادی طور پر کسی بھی ملک کی مجموعی آمدنی اور مجموعی اخراجات میں فرق کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کہا جاتا ہے۔

اگر آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی باتیں کی جاتی ہیں اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ حکومتی وزراء نے الیکشن جیت کر گھاٹے کا سودا کیا ہے کیونکہ حکومتی کاروبار تو سراسر گھاٹے میں جا رہا ہے۔

دوسری جانب اگر اخراجات کم اور آمدن زیادہ ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں بدل جاتا ہے جو موجودہ حکومت کی ایک اہم کامیابی کہی جاسکتی ہے۔

حکومت کی آمدن اور اخراجات کیا ہیں؟

آمدن میں سرمایہ کاری، برآمدات، ترسیلاتِ زر یعنی سمندر پار پاکستانیوں کی پاکستان کو بھیجی گئی رقومات اور ٹیکس آمدنی سب شامل ہیں۔

اس کے برعکس درآمدات، قرضوں کی ادائیگی اور ترقیاتی منصوبوں سمیت ہر چھوٹے بڑے کام پر کیا جانے والا ہر قسم کا خرچ حکومتی اخراجات میں شامل ہوتا ہے۔

خسارہ کم ہو کر سرپلس کیسے ہوا؟

تقریباً 2 سال قبل تقریباً 14 لاکھ افراد ٹیکس دیا کرتے تھے جو 1 سال میں 25 لاکھ تک جا پہنچے۔ بالواستہ ٹیکسز بھی بڑھ گئے اور موجودہ حکومت نے کم خرچ بالا نشین کی پالیسی اپناتے ہوئے صدر، وزیرِ اعظم اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات کم کیے۔

درآمدات کو فروغ دینے کی بجائے برآمدات پر زور دیا گیا جس سے گزشتہ مالی سال کے پہلے مہینے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 57 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز ہوگیا جو گزشتہ برس 2 ارب 13 کروڑ ڈالرز تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں یہ خارہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔

اگست 2020ء تک وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان کے مطابق 42 کروڑ ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا۔ قبل ازیں جولائی 2019ء میں یہ خسارہ 61 کروڑ ڈالر رہا جب جون 2020ء میں 10 کروڑ ڈالر ہوگیا تھا۔

جمع تفریق کے کھیل اور حقیقت میں فرق 

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ جمع تفریق کرکے آپ یہ تو ظاہر کردیتے ہیں کہ آمدن اور اخراجات کے فرق سے ہم بچت میں یعنی فائدے میں ہیں لیکن اس کھیل اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ آپ آمدن اور اخراجات کو ملکی سطح پر دیکھتے ہیں اور ان کے فرق سے ایک بیلنس شیٹ کی طرح ایک مثبت اور واضح خاکہ پیش کرتے ہیں کہ آپ منافع میں ہیں لیکن اس سے معاشی صورتحال پر حتمی رائے قائم کرنا بے حد مشکل ہے۔

اہم بات معیشت میں نمو ہوتی ہے یعنی سوال یہ کرنا چاہئے کہ کیا معاشی ترقی ہورہی ہے؟ اگر کاروباری ادارے ترقی نہ کریں، اگر عوام مفلوک الحال ہوں تو درآمدات میں کمی ہونے سے اکاؤنٹ کا سرپلس ہونا کوئی مثبت اشاریہ نہیں کہا جاسکتا۔

اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی قومی معاشی ترقی میں شرحِ نمو 2 فیصد سے کم ہے جو کسی ترقی یافتہ ملک کیلئے تو شاید مناسب کہی جاسکے لیکن پاکستان جہاں افراطِ زر کی شرح 9 فیصد سے زائد ہے، وہاں یہ ترقی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ 

ترسیلاتِ زر کا دوسرا رخ

ہر بار جب ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوتا ہے تو وفاقی حکومت اور خود وزیرِ اعظم عمران خان اس پر خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ ملکی معیشت کیلئے خوش آئند ہے۔

دراصل ترسیلاتِ زر سے مراد وہ رقوم ہیں جو بیرونِ ملک مقیم اور سمندر پار پاکستانی اپنے وطن میں بھجواتے ہیں جس سے پاکستان میں ڈالرز کی قدر میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔

رواں برس جون سے جولائی کے درمیان ترسیلاتِ زر میں 6 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی ترقی ہو رہی ہے لیکن اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ملک سے باہر ہمارے ہم وطن پاکستانی مہنگائی کا شکار اپنے رشتہ داروں کی مدد کیلئے زیادہ سے زیادہ رقوم بھیجتے ہیں، تو کیا ہم اسے معاشی ترقی قرار دیں؟

سب سے بڑے مسئلے پر قابو پانے کی ضرورت

عمران خان آج فیصل آباد پہنچے ہیں جہاں کاروباری برادری سے ملاقاتیں اور خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے کیلئے اہم اعلانات کی توقع کی جارہی ہے تاہم موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ کاروباری برادری کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔

غریب عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ترسیلاتِ زر یا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نہیں بلکہ مہنگائی اور روزگار ہے جس پر قابو پانے کے تحریکِ انصاف نے 2018ء کے عام انتخابات سے قبل وعدے کیے تھے۔

تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک کتنی ترقی کر رہا ہے، بلکہ وہ اپنے گھر اور پیٹ پالنے کے بارے میں سب سے زیادہ سوچتے ہیں لیکن شاید وفاقی حکومت کو یہ بات سمجھنے میں دیر لگے گی کہ وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں کیونکہ وطن تو سب کا سانجھا ہوتا ہے۔ 

یہ کہنا بے جا ہوگا کہ وزیرِ اعظم عمران خان خدانخواستہ اپنے وعدوں سے مکر گئے ہیں لیکن معاشی ماہرین کی ٹیم کے ساتھ ساتھ انہیں عوام الناس کے مسائل کا بھی ادراک کرنا ہوگا اور اس کیلئے روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی جیسے عفریت پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔