عرب اسرائیل معاہدہ، مسئلہ فلسطین اور مسلم امہ کا کردار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اور امن معاہدے پر مسلم ممالک میں ایک بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے، ایران اور ترکی نے اس اقدام پر برملا تنقید کرتے ہوئے متحدہ عرب امارت کے فیصلے کو فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں بڑی رکاوٹ اور غداری سے تشبیہ دی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر متحدہ عرب امارات کیساتھ سفارتی تعلقات معطل کرنے اور سفیر واپس بلانے کا عندیہ دیا ہے جبکہ پاکستان دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہے۔متحدہ عرب امارات مصر اور اردن کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا تیسرا عرب ملک بن گیا ہے۔

امن معاہدہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ کا اعلان کرتے ہوئے اس اقدام کو ایک بہت بڑی پیشرفت قرار دیا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات استوار کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔امریکی صدر کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے دو عظیم دوستوں کے مابین تاریخی امن معاہدہ ہے اور اس کے بعد اسرائیل اور خطے میں مسلمان پڑوسیوں کے مابین مزید سفارتی کامیابیاں متوقع ہیں۔

اس مجوزہ امن معاہدے کے تحت اسرائیل فلسطین کے مغربی کنارے کے علاقوں میں اپنی خودمختاری کے اعلان کو عارضی طور پر معطل کردیگاجبکہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل آئندہ ہفتوں میں سلامتی ،باہمی سفارتخانوں ،سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوںسے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

اسرائیل
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے عبرانی زبان میں ٹوئٹ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے جبکہ ٹی وی پر اپنے خطاب میں اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس امن معاہدے سے اسرائیل اور عرب دنیا کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔

متحدہ عرب امارات
عرب دنیا کے ایک بااثر ملک کا درجہ رکھنے والے متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ایک بہت جر&اتمندانہ اقدام ہے ، اس معاہدے سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان طویل عرصے سے جاری تنازع کا حل ممکن ہو گا۔متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش کا کہناہے کہ دونوں ممالک میں سفارت خانے سے کے قیام سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

مسلمان ممالک 
مسلم دنیا کے بااثر ملک ترکی اور اسرائیل سے برسرپیکار ایران نے عرب اسرائیل معاہدے کو فلسطین کاز کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا ہے جبکہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل امارات معاہدے پر فلسطینی قیادت کاہنگامی اجلاس طلب کیا ہے اور امارات سے اپنا سفیر بھی واپس بلالیا ہے اور حماس نے بھی اس معاہدے کو مستردکردیا ہے۔

مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے اسرائیل امارات معاہدے میں امریکا کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطی میں امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔پاکستان نے کہا ہے کہ ہم نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی مکمل بحالی کے معاہدے کا مشترکہ بیان دیکھا ہے، یہ دور رس مضمرات کی حامل پیش رفت ہے، فلسطینی عوام کے جائز حقوق انہیں دیے جائیں۔

فلسطین کا مسئلہ
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے،یہ اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا جس کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔ 1948ء سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھاجو خلافت عثمانیہ میں بھی قائم رہا مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کر لیااور 1948ء میں یہاں کے بیشتر علاقے پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔

فلسطین کا دار الحکومت بیت المقدس تھا جس پر 1967ء میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں اور یہ شہر یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر 1948ء اور 1967ء میں دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیںتاہم پہلی عالمی جنگ کے بعد عرب ممالک کے حصے بخرے ہوگئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین میں یہودی آبادی کاری کی راہیں ہموار ہوگئیں۔

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان انتہائی پیچیدہ تنازعہ پر دونوں اقوام کسی بھی حل پر متفق نہیں ہوسکیں، سرحدی تنازعات، باہمی شناخت، سلامتی ، آبی حقوق ، یروشلم پر کنٹرول ، اسرائیلی بستیوں کا قیام ، فلسطینیوں کی نقل و حرکت کی آزادی اور فلسطینیوں کا وطن واپسی کا حق یہ وہ نکات ہیں جن پر اسرائیل اور فلسطین کبھی متفق نہیں ہوپائے جبکہ مسلم دنیا کا ماننا ہے کہ عرب ریاستوں سے تعلقات استوار کرنے کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوجائیگا۔