کراچی میں ٹرانسپورٹ کے معاملےپرسندھ حکومت اپنےوعدے کب پورے کرے گی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک کا سب سے بڑا شہر اور سندھ کا صوبائی دارالحکومت کراچی مسائل کا گڑھ بن چکا ہے، یہاں سے فائدہ تو پورے ملک کو پہنچتا ہے لیکن سہولیات دینے کو کوئی تیار نہیں۔

ماضی میں جب ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ہوا کرتی تھی، لوگ پیدل ہی ایک شہر سے دوسرے شہر جایا کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ٹرانسپورٹ کے ذریعے وہ وقت بچایا جاسکتا ہے جو سفر پر ضائع کیے بغیر کسی اور مفید مقصد کیلئے استعمال کیا جاسکے۔

کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے، آج ہی یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ لاہور میں 25 اکتوبر سے میٹرو لائن سروس شروع ہوجائے گی تاہم کراچی کے شہری ایسی سہولیات سے تاحال محروم ہیں۔

آئیے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے شہرِ قائد کی تعمیر و ترقی اور سہولیات فراہمی کے وعدے وفا کیوں نہ ہوسکے؟ 

ٹرانسپورٹ مسائل کی موجودہ صورتحال

شہرِ قائد میں مجموعی طور پر 329روٹس موجود ہیں جن میں سے صرف 111 کی بسیں دستیاب ہیں جبکہ 218 ایسے روٹس ہیں جہاں عوام عام بسوں سے محروم رکشوں اور ٹیکسی وغیرہ کے منہ مانگے دام بھرنے پر مجبور ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ بے حد کم ہے اور خستہ حال بسوں کے ساتھ ساتھ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے شہر کا براحال کردیا ہے۔ سی این جی بند ہوجائے تو یہ ایک الگ پریشانی بن جاتی ہے۔ سرکلر ریلوے، گرین لائن اور دیگر منصوبہ جات سست روی کا شکار ہیں۔

سندھ حکومت اور وفاق کی رسہ کشی 

وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کے مطابق 18ویں ترمیم کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان سندھ میں براہِ راست کام نہیں کرسکتے جبکہ سندھ حکومت کو کراچی کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ 12 سال سے پیپلز پارٹی نے حکومت میں رہ کر کراچی کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔

علی زیدی نے کہا کہ ہم نے کراچی میں جس حد تک ممکن ہوسکا، کام کیے لیکن بلاول بھٹو زرداری نے یہ ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وفاق ہماری مدد نہیں کرتا نہ ہی سندھ حکومت کو فنڈز دئیے جاتے ہیں۔ ہم ورلڈ بینک سے قرض لے کر کراچی کیلئے فنڈز اکٹھے کر رہے ہیں۔

یہ بڑا پیچیدہ مقدمہ ہے جسے سمجھنے کیلئے چیف جسٹس کے ریمارکس پر غور کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ ہیلی کاپٹر پر 2 چکر لگاتے ہیں جبکہ کراچی میں ناجائز تجاوزات کی بھرمار ہے۔

 یہاں سندھ حکومت، وفاقی حکومت اور تحریکِ انصاف کے نمائندوں کو بھی صورتحال کے تدارک کیلئے کچھ کرنا ہوگا، تبھی صورتحال کچھ بہتری کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ 

شہرِ قائد کی آبادی اور ٹرانسپورٹ کا تناسب

اگر سن 2017ء کی مردم شماری دیکھئے تو کراچی کی آبادی 1 کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار 352 نفوس پر مشتمل ہے لیکن یہ متنازعہ مردم شماری ہے۔

غیر سرکاری اعدادوشمار کا جائزہ لیجئے تو کراچی کی آبادی 2 کروڑ 40 لاکھ سے زائد تاہم بعض سیاسی جماعتیں اسے 3 کروڑ بھی قرار دیتی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی قومی پیداوار کا 30 فیصد جبکہ مجموعی صنعتی پیداوار کا 20 فیصد پیدا کرتا ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق کراچی میں ٹرانسپورٹ، پانی کی فراہمی و نکاسی، ناجائز تجاوزات ، آلودگی اور دیگر مسائل کے حل کیلئے 10 ارب ڈالر خرچ ہوسکتے ہیں۔

یہی ورلڈ بینک قبل ازیں یہ رپورٹ بھی دے چکا ہے کہ کراچی کی آبادی 2030ء تک 3 کروڑ 20 لاکھ ہوسکتی ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں پبلک ٹرانسپورٹ جو 22 ہزاربسوں اور منی بسوں پر مشتمل تھی ، وہ صرف 8 ہزار تک محدود ہے۔ 45 شہریوں کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کی صرف 1 ہی سیٹ دستیاب ہوپاتی ہے۔ ہانگ کانگ میں 8 شہریوں کیلئے 1 سیٹ ہوتی ہے جبکہ ممبئی میں یہ تناسب 12 کا ہے۔ 

کورونا وائرس اور ٹرانسپورٹ کے مسائل 

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں کورونا وائرس نے معیشت کو بہت نقصان پہنچایا، کراچی سمیت پاکستان کے ہر شہر میں ٹرانسپورٹ اور نقل و حمل پر کچھ عرصے تک پابندی عائد رہی۔

بعد ازاں سندھ حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش سے متاثرہ خاندانوں کو بڑا ریلیف دیتے ہوئے روٹ پرمٹ پر جرمانہ سو فیصد معاف کردیا۔ معافی کا اطلاق اپریل سے جون تک کیا گیا تھا۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کورونا وائرس کی ایس او پیز مسلسل نظر انداز کی جارہی ہیں، عوام پبلک ٹرانسپورٹ میں نہ صرف سیٹوں پر بیٹھ کر اور قریب کھڑے ہو کر بلکہ چھتوں پر بھی سفر کرتے ہیں کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ مقررہ تعداد میں دستیاب نہیں۔ 

مسائل کا حل کیا ہے؟

پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور کے مطابق کراچی کی معیشت کی ترقی میں سب سے بڑ رکاوٹ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور فرسودہ پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔

چیئرمین پی ڈی پی نے کہا کہ اگر صدر اور وزیرِ اعظم اور گورنر سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیدار اگر کراچی کی ٹرانسپورٹ میں سفر کریں تو کمر کے مہرے اپنی جگہ سے ہل جائیں گے۔

کوئی بھی شہر اس وقت ترقی کرتا ہے جب وہاں ٹرانسپورٹ کا نظام اچھی حالت میں موجود ہو۔ سڑکوں پر سفر سست، خطرناک اور تکلیف دہ کے ساتھ ساتھ مہنگا بھی ہے۔

الطاف شکور کا کہنا تھا کہ کے سی آر ار دوسری پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی نہ کرنے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ کراچی کے شہری پر امن احتجاج کا سہارا لیں۔

شہریوں ک چاہئے کہ فوری بنیادوں پر کراچی کو نیا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم دلانے کیلئے حکومتوں کو کے سی آر، بی آر ٹی اور نئی بسوں کی فراہمی پر متحرک کام پر مجبور کریں۔