ملک میں اشیائے خوردونوش کے بعد اب چائے کی پتی کی قلت کا بھی خدشہ پیدا ہوگیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: ملک میں اشیائے خوردونوش کی قلت کے بعد اب چائے کی قلت کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے خام مال اور اشیائے ضروریہ کے پورٹ پر پھنسے کنٹینرز کلیئر کرنے کی اجازت کے باوجود جہاں اب بھی ہزاروں کنٹینرز پورٹ پر پھنسے ہیں انہی میں چائے کی پتی کے سیکڑوں کنٹینرز بھی شامل ہیں۔

اسی سلسلے میں سابق چیئرمین پاکستان ٹی ایسوسی ایشن اور ایف پی سی سی آئی ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبر محمد شعیب پراچہ نے آنے والے دنوں میں چائے کی انتہائی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ بندرگاہوں پر پھنسے تقریبا 250 کنٹینرز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے چیپٹر 84، 85 اور 87 کے درآمدی کنٹینرز کی اجازت دی ہے تاہم اس میں چائے کی پتی کے کنٹینر شامل ہیں یا نہیں ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

جنوبی کوریا کا کرپٹو ٹریکنگ سسٹم متعارف کرانے کا منصوبہ

شعیب پراچہ نے کہا کہ تاجروں کے احتجاج کے بعد اسٹیٹ بینک نے 180 دن کی تاخیر سے ادائیگی پر کنٹینرز ریلیز کرنے کی اجازت دی، تاہم چائے کی پتی کے فروخت کنندہ ادائیگی میں تاخیر کی اجازت نہیں دے رہے جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ مستقبل میں فروخت کنندہ آرڈر نہیں لیں گے، جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمرشل بینکوں میں ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت تک دارآمد کنندگان پر کروڑوں روپوں کا ڈیمریج اور کنٹینرز کے کرائے لگ چکے ہیں۔ قلت کی ایک بنیادی وجہ حکومت کی طرف سے کوئی طویل مدتی پالیسی نہ ہونا ہے۔

سابق چیئرمین ٹی ایسوسی ایشن کا مزید کہنا تھا کہ چائے ایک بنیادی جز ہے جسے ہر عام آدمی بھی استعمال کرتا ہے اور چائے کی طلب تقریبا 250 ملین کلو سالانہ ہے۔ گزشتہ ہفتہ روپے کی تنزلی سے چائے کی فی کلو قیمت پر اوسطا 110 روپے کا فرق پڑ چکا ہے۔ نئے درآمد کے لیے کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سپلائی چین انتہائی متاثر ہوسکتی ہے۔

Related Posts