قومی اداروں کا تصادم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملکی سیاست میں ان دنوں اہم تعیناتی، سیاسی بیانیے اور قومی اداروں پر سوالات اٹھانے کا چلن عام اور یہ تاثر بڑھ رہا ہے  کہ ادارے ہمیشہ آئین کے مطابق کام نہیں کرتے، بلکہ ان سے غلطیاں ہوجایا کرتی ہیں۔

جب کسی ملک میں مختلف ادارے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوں تو یہ سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ کیا ایک ادارے نے قانون کی خلاف ورزی کی یا دوسرے نے؟ یا پھر دونوں ہی ادارے آئین کے کسی سقم کی وجہ سے باہم متصادم ہیں؟

گزشتہ روز سیہون میں وین حادثے میں 21 افراد کے جاں بحق ہونے پر دوسرا مقدمہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور موٹر وے پولیس افسران پر تھانہ سیہون میں وین ڈرائیور کے بھائی صدام حسین کی مدعیت میں درج ہوا۔

مقدمے میں ڈی ایس پی ریلوے، انسپکٹر ساجد شاہ، این ایچ اے کے ڈائریکٹر ساؤتھ، ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور انسپکٹر عابد حسین شاہ کو بھی نامزد کیا گیا۔واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ  17 نومبر کے روز سیہون میں ٹول پلازہ کے قریب انڈس ہائی وے پر مسافر وین گڑھے میں جاگری تھی۔

مسافر وین کے گڑھے میں جاگرنے سے 12 بچوں سمیت 21 افراد جاں بحق جبکہ 13 زخمی ہوئے۔ حادثہ سیلابی صورتحال کے 2 ماہ بعد بھی سیلابی پانی کے اخراج کیلئے لگائے گئے کٹ اور کھڈے کو پر نہ کرنے کے باعث پیش آیا۔

ایک طرف نیشنل ہائی وے اتھارٹی تھی تو دوسری جانب محکمۂ آبپاشی۔ این ایچ اے دادو نے 29 ستمبر کو محکمۂ آبپاشی کو انڈس ہائی وے پر لگائے گئے کٹ بند کرنے کے متعلق خط لکھا تھا۔

بلاشبہ یہ سنگین حادثہ کچھ افسران کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم واقعے کی حقیقی وجوہات تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آسکتی ہیں۔ فی الحال اس میں 2 اداروں کا تصادم واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

قومی سطح پر ایک اور تصادم ہمیں سیاستدانوں اور عسکری قیادت میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاک فوج تو اس بات پر واضح مؤقف دے چکی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اب مزید توسیع نہیں لیں گے اور ان کی جگہ نیا آرمی چیف تعینات کیا جائے گا۔

تاہم دوسری جانب سیاستدان خاصی الجھن کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایک جانب تو وزیر اعظم آفس کے حوالے سے یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری موصول ہوگئی تو دوسری جانب شاہد خاقان عباسی یہ بیان دیتے ہیں کہ سمری کا نہ آنا بڑی ناکامی ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے اپنے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم سمری نہ آنے کا نوٹس لینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ سمری میں اہل آدمی کا نام شامل نہ کرنا اور ان کی جگہ دوسرے کو رکھنا غیر قانونی ہوگا۔

یہاں سول اور عسکری قیادت کے اختلاف کی جگہ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ سرکار کی تمام تر سویلین قیادت بھی آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر ایک پیج پر نہیں، جیسا کہ گزشتہ روز شیخ رشید نے بھی نشاندہی کی ہے جبکہ قوم کی تعمیر و ترقی کیلئے اتفاقِ رائے بے حد ضروری ہے۔