چوبیس سالہ بشار الاسد حکومت کا زوال : خطے پر مضمرات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شام کے صدر بشار الاسد کے ملک سے مبینہ فرار کے بعد باغی دارالحکومت دمشق میں داخل ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہزاروں افراد نے مرکزی چوک میں جشن منایا اور آزادی کے نعرے بھی لگائے۔ شامی فوج کی کمان نے افسران کو اطلاع دے دی کہ باغیوں کے حملے کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت کا وجود عملاً ختم ہوچکا ہے۔

قبل ازیں بشار الاسد اتوار کے روز سے ہی منظرِ عام سے غائب رہے۔ شامی فوج کے دوسینئر افسران کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا کہ بشار الاسد اتوار کو کسی نامعلوم مقام کیلئے روانہ ہوئے تھے،جن کی موجودگی کے متعلق فی الحال وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ ہم شامی عوام کے ساتھ اپنے قیدیوں کی رہائی اور قید کی زنجیریں ٹوٹنے کی خبر پر جشن منا رہے ہیں۔ اعلان کرتے ہیں کہ ناانصافی کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔

شام میں حالیہ پیش رفت مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہے۔ چوبیس  سال سے برسر اقتدار اسد حکومت کا خاتمہ حیرت انگیز طور پر مختصر وقت میں ہوا، جہاں اپوزیشن جنگجوؤں کے آخری حملے نے دہائیوں پر مشتمل ایلابائٹ  اقتدار کو ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں ختم کردیا۔ یہ زوال ان مقامی اور بین الاقوامی حرکیات کا مظہر ہے جو اس خطے کے مستقبل کو تشکیل دے رہے ہیں۔

اگر اپوزیشن کے کردار کی بات کی جائے تو 13 سال تک HST (شامی اپوزیشن گروپوں کا اتحاد) اور دیگر باغی دھڑے اسد حکومت کے خلاف بہت سے پڑوسی ممالک کی حمایت سے مزاحمت کرتے رہے۔ یہ گروہ، جنہیں اکثر دہشت گرد تنظیموں جیسے القاعدہ اور داعش کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے، روس اور ایران کی غیر متزلزل حمایت کے سبب  دارالحکومت دمشق پر قبضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے ۔

بین الاقوامی حرکیات کے تناظر میں شامی تنازع پر عالمی اور خاص طور پر علاقائی ردِ عمل متنازع رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل شام میں ایرانی اثر و رسوخ کو خطے کے استحکام کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں۔ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کا مزاحمتی محور بری طرح کمزور ہوجائے گا۔ شام کے کھونے سے لبنان میں حزب اللہ اور دیگر گروپوں کے لیے ایرانی ہتھیاروں کی ترسیل اور حمایت  تقریباً ناممکن ہوتی جائے گی۔

اس موقعے پر شامی وزیراعظم محمد غازی الجلالی نے کہا کہ میں اپنا گھر چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا، یقینی بنانا ہوگا کہ سرکاری ادارے کام جاری رکھیں، شہری عوامی املاک کا تحفظ یقینی بنائیں۔ سب پر زور دیتا ہوں کہ منطقی طور پر اور ملک کے بارے میں سوچیں، ہم اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں جو ہماری طرف ہاتھ بڑھا رہی ہے۔

امریکی شہری نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی بولی لگا کر چترال میں مارخور کا شکار کرلیا

دوسری جانب ترکیہ کی اسٹرٹیجک کامیابیاں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ ترکیہ کو ان تبدیلیوں سے خاصا فائدہ  حاصل ہوگا۔ شام کے شمالی علاقے، جو زیادہ تر کردوں پر مشتمل ہیں، طویل عرصے سے نہ صرف تنازعے کا مرکز بلکہ ترکی کیلئے دردِ سر رہا ہے ۔ امریکہ کی آنے والی  حکومت کی  شام میں متوقع طور پر موجودگی ختم کرنے کے امکانات کے ساتھ، ترکیہ اپنی طاقت بڑھانے کے مواقع دیکھ سکتا ہے، جو شمالی شام میں ترک مفادات کے لیے سازگار ہوگا۔

مستقبل کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں21 جنوری کو ٹرمپ حکومت کے قیام کے بعد ابراہم اکارڈ کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے اور دنیا کے کئی اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر دباؤ پڑناشروع ہوجائے گا اور پاکستان کا بھی اس سے مبرا رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیلی اثر رسوخ خطےمیں بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔

ایران اپنے آپ کو تنگ گلی میں موجود دیکھ کر اپنی آخری طاقت کو بھی استعمال کرنے سے شاید گریز نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران اپنے موذی ہتھیاروں کا استعمال، اپنے میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے اسرائیل کو نشانہ بنا سکتا ہے کیونکہ ایران یہ سمجھتا ہے کہ ان تمام معاملات کے بعد ایران کی بقاء کو اسرائیل سے خطرات لاحق ہیں، جن سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔

اسد حکومت کا زوال نہ صرف شام کے اندر حکمرانی کی تبدیلی کی علامت ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سنی گروہوں کا ابھرنا، ترک اثر و رسوخ کا پھیلاؤ، اور ایرانی طاقتوں کو چیلنجز درپیش آنا، یہ سب اس خطے میں ایک نئی سیاسی ترتیب کا آغاز کرسکتے ہیں، جس کے اثرات طویل مدتی ہوں گے۔

Related Posts