برباد معیشت پر میں نہ مانوں کی تکرار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں مسائل تو بتائے جاتے ہیں لیکن انہیں حل کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی، یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں اپنی کوتاہیوں کو دوسروں کی ذات پر ڈال کر خود بری الذمہ ہوجانے کا رواج عام ہے۔

موجودہ دور حکومت میں اپنی کوتاہیوں کوماننے کے بجائے دوسرو ں پر ڈالنے کا کلچر بہت مضبوط ہوچکا ہے ،ہر وزیرمشیر مہنگائی پر کوئی نہ کوئی جواز گھڑتا دکھائی دیتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت کے موجودہ وزیرخزانہ شوکت ترین گزشتہ 40 سال سے بطور بینکار خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کو معیشت دان کے طور پر وزیرخزانہ بنادیا گیا ہے تاکہ وہ اس ملک کی معیشت کو بہتر بنائیں اور مہنگائی کو کم کریں۔

اس کے برعکس معیشت میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر باقر رضا کو اسٹیٹ بینک کا گورنر بنادیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں ہمیشہ گنگا الٹی بہتی ہے، اسی لئے بینکارکو وزیرخزانہ اور اکانومسٹ کوبینکار بنادیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک سرتوڑ کوشش کے باوجود آج تک بطور بینکار ناکام رہے اور 40 سال بطور بینکار کام کرنے والے شوکت ترین بینکاری کے شعبہ میں کامیاب رہے لیکن جب وہ معیشت کی طرف آئے تو معیشت کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ملک میں تقریباً تمام اداروں کا کم و بیش یہی عالم ہے۔

اب اگر ہم دنیا میں تیل کی قیمت کی وجہ سے مہنگائی بڑھنے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی بات درست مان لیں توبھی مجھے سمجھ نہیں آتا کہ تیل تو پوری دنیا کیلئے مہنگا ہوتا ہے لیکن مہنگائی کے اثرات صرف پاکستان پر ہی کیوں مرتب ہوتے ہیں؟

دنیا کے چند ممالک میں مہنگائی پر نظر ڈالیں توایشیا کے اندر چین میں ایک اعشاریہ5فیصد، متحدہ عرب امارات میں 2اعشاریہ58فیصد، بھارت میں 4اعشاریہ91، بنگلہ دیش میں 5 اعشاریہ98 فیصد، عراق میں 6اعشاریہ8فیصد اور سب سے زیادہ پاکستان میں 12اعشاریہ3 فیصد مہنگائی ہے۔

افریقہ پر نظر ڈالیں تو روانڈا میں منفی 34فیصد، سینیگال میں 3فیصد، کانگو میں 3اعشاریہ9 فیصد، نائیجریا میں 3اعشاریہ6فیصد مہنگائی ہے جبکہ صدیوں سے دنیا کا مہنگا ترین خطہ سمجھے جانیوالے یورپ میں اگر دیکھیں تو سوئٹزر لینڈ میں ایک اعشاریہ5فیصد، فرانس میں 2اعشاریہ8 فیصد، ڈنمارک میں 3اعشاریہ4 فیصد، جرمنی میں 5اعشاریہ3 اور برطانیہ میں 5 اعشاریہ ایک فیصد مہنگائی کی شرح ہے۔اسی طرح آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکا میں بھی مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ میں ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12 فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے ۔ یہاں دعوے تو مہنگائی کم کرنے کے کئے جاتے ہیں کہ اب مہنگائی کم ہوجائیگی لیکن درحقیقت عوام پر ٹیکسز میں کسی نہ کسی طریقے سے اضافہ کردیا جاتا ہے۔

ملک میں گزشتہ 3 سالوں کے درران مہنگائی میں ہولناک اضافہ ہوا ہے اور موجودہ حکمران اپنی کوتاہیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے بڑی بے رحمی سے کبھی کورونا وائرس، کبھی عالمی کساد بازاری، کبھی تیل کی قیمت پر ملبہ ڈال دیتے ہیں اور متواتر ایندھن، بجلی اور خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو زندہ درگور کیا جارہا ہے۔

موجودہ دور حکومت میں عوام کو سستی ادویات کی فراہمی بھی ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ بچوں کے ڈبے کے دودھ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں لیکن حکمران ذمہ داری قبول کرنا تو دور، حقیقت تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہیں۔

خدارا! عوام پر رحم کیا جائے کیونکہ یہ غریب عوام بہت امیدوں کے ساتھ سیاستدانوں کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں۔ دوسری جانب سیاستدان عوام کو صرف آسرے اور دلاسے دیتے ہیں لیکن مہنگائی کم ہوتی ہے نہ عوام کی زندگی میں کسی تبدیلی کی امید پیدا ہوتی ہے۔

Related Posts