صرف 200 روپے میں جنسی درندگی اور ہر ظلم جائز! جسم فروش خواتین کی زندگی کے تلخ حقائق، دل دہلا دینے والے انکشافات، ویڈیو

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
The Bitter Truth of Lives Trapped in Sex Work
ONLINE

بھارت کی معروف سماجی کارکن، انسانی حقوق کی علمبردار اور کت کتھا نامی این جی او کی بانی گیتانجلی ببر نے ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ہندوستان کے مختلف شہروں کے ریڈ لائٹ ایریاز میں ہونے والی تلخ حقیقتوں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت کے ہر بڑے شہر میں ایک نہ ایک ریڈ لائٹ ایریا موجود ہے، جو کوٹھوں (جسم فروشی کے مراکز) سے متعلق خدمات کیلئے مشہور ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان جگہوں پر رات گئے لمبی گاڑیوں میں آنے والے وزراء، افسروں اور امیر لوگوں کا کبھی ذکر نہیں ہوتا۔

گیتانجلی نے دہلی کے ریڈ لائٹ ایریا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں تقریباً 2500 سے 2800 خواتین رہائش پذیر ہیں لیکن آج تک انہوں نے کسی سیاست دان کو وہاں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔

اُن کے مطابق اگر زمین پر جہنم کا کوئی تصور موجود ہے تو وہ ان کوٹھوں میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں بدترین بیت الخلا، تنگ و تاریک کمرے اور ذلت بھری زندگی اِن خواتین کا مقدر بن چکی ہے۔

گیتانجلی ببر نے انکشاف کیا کہ اس وقت بھارت بھر میں تقریباً 1اعشاریہ 3 کروڑ (13 ملین) لڑکیاں کوٹھوں میں مقیم ہیں جن میں سے اکثریت ایسی ہے جو یا تو بچپن میں اغوا ہو کر وہاں لائی گئی یا خاندانی مجبوریوں کے باعث اس پیشے میں دھکیلی گئی۔ ان میں چند ایک ہی ایسی ہیں جو اپنی مرضی سے اس راستے پر چلیں، لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

پوڈکاسٹ میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کوٹھوں کے گاہک صرف مردانگی کی ہوس پوری کرنے نہیں آتے بلکہ ان میں اسکول، کالج کے طالبعلم، دفتری ملازمین، بڑے تاجراور سیاست دان تک شامل ہوتے ہیں، جن کے مخصوص کوٹھے اور لڑکیاں فکس ہوتی ہیں۔ کچھ تو نشے میں دھت ہو کر آتے ہیں اور لڑکیوں کو محض جسمانی سامان سمجھ کر بدترین سلوک کرتے ہیں۔

 

ایک اور اہم بات جو انہوں نے کی، وہ یہ تھی کہ آج کا جنسی دھندا صرف کوٹھوں تک محدود نہیں رہا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جسم فروشی کا نظام اب ایپس، سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے بھی چلایا جا رہا ہے جسے وہ آن لائن ٹرانسفارمیشن آف بروتھلز کا نام دیتی ہیں۔ کالج کی لڑکیاں بھی اس سسٹم کا حصہ بن رہی ہیں، جو پیسوں کے عوض جسم فروشی کر رہی ہیں۔

گیتانجلی ببر نے واضح انداز میں کہا کہ کوئی بھی عورت اپنی مرضی سے جسم فروشی نہیں کرتی بلکہ اسے حالات، غربت، لاعلمی اور ظلم اس پیشے میں لے آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاہر عورت جسم فروش نہیں ہوتی لیکن ہر جسم فروش عورت ہوتی ہے اور کوئی عورت پیدائشی جسم فروش نہیں ہوتی، بلکہ اسے معاشرہ بناتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مرد حضرات کوٹھوں کا رخ کرنا بند کر دیں تو خودبخود یہ دھندا بند ہو جائے گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مردانگی کی بھوک کو قانونی، معاشرتی اور مذہبی پردے کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے اور قصوروار ہمیشہ عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

Related Posts