چینی کی برآمد

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

چینی برآمد کرنے کے معاملے پر وفاقی حکومت میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ شوگر انڈسٹری کے ارکان اور مختلف حکومتی وزراء کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ اس وقت ختم ہوگئی جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اضافی اسٹاک برآمد کرنے کے حق میں ہونے کے باوجود وزارت خوراک نے چینی کی برآمد کی مخالفت کی۔

یہ اجلاس گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر درست تصدیق کے بغیر چینی برآمد کرنے کی اجازت نہ دینے کے بعد طلب کیا گیا تھا۔

پیر کے روز جو اجلاس منعقد کیا گیا اس میں اسحاق ڈار اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (PSMA) کے نمائندوں نے بھی شرکت کی، طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ چینی کی فصل کو سیلاب سے پہلے ہی نقصان پہنچا ہے اور مجوزہ 1.2 ملین ٹن برآمد کرنے سے چینی کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس سے پہلے بھی پچھلی حکومت کے دور میں دیکھ چکے ہیں، جب چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے سے مقامی مارکیٹ میں قلت پیدا ہوئی اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا۔ پی ٹی آئی کے اس فیصلے سے پہلے چینی کی قیمت 54 روپے کے لگ بھگ تھی،ایکسپورٹ کرنے کے اقدام کے بعد، ہم نے قیمت کو 71 تک بڑھتے دیکھا۔

اس کے بعد سے مہنگائی صرف چینی اور دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں مزید اضافے کا سبب بنی۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کا دعویٰ ہے کہ اس سال ملک میں 20 لاکھ میٹرک ٹن چینی سرپلس ہے جس میں سے آدھی چینی کو حکومت برآمد کے لیے ہری جھنڈی دکھا رہی ہے۔

یہ عنصر حکومت میں معاشی ماہرین کی جانب سے ناقص پالیسی سازی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس موقع پر، ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ قیمتوں میں اضافے کو روکا جائے، اگر ملزمالکان مقامی مارکیٹ میں اضافی چینی فروخت کرتے تو ہم نے نرخوں میں کمی دیکھی ہوتی۔ لیکن ایک بار پھر، موجودہ حکومت نے اوسط صارف کے بجائے دولت مند ملرز کے منافع کو ترجیح دی ہے۔

Related Posts