غیر معیاری کھاد اوربیج کپاس کے شعبے کو تباہ کر رہے ہیں،میاں زاہد حسین

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوج کے خلاف پروپیگنڈہ مہم پر قانونی کارروائی کی جائے،میاں ز اہد حسین
فوج کے خلاف پروپیگنڈہ مہم پر قانونی کارروائی کی جائے،میاں ز اہد حسین

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی:پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملکی معیشت میں کاٹن اکانومی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔لاکھوں افراد کو روزگار اور 50 فیصد تک زرمبادلہ کمانے والے اس شعبے کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں 14 فیصد کمی آ چکی ہے اور مزید کمی کا سلسلہ جاری ہے۔اگر کپاس کی فصل پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ معیشت کو بٹھا دے گی۔

میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ فصل میں کپاس کی پیداوار میں کم از کم70 لاکھ گانٹھوں کی کمی ہوئی ہے اور اگر صورتحال بہتر کرنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے توآئندہ کی فصل میں شارٹ فال مزید بڑھ جائے گا۔

سب سے بڑے برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کو رواں رکھنے کے لئے کم از کم 6ارب ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کر کے کپاس درآمد کرنا ہو گی۔ کپاس کو موسمیاتی تبدیلی،بارشوں اور سیلاب نے بڑا نقصان پہنچایا جس پر کنٹرول ممکن نہیں مگر جعلی زرعی ادویات، غیرمعیاری کھاد اور غیر معیاری بیج کا سد باب ممکن ہے جس پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں کاشتکاروں کو مجموعی طور پر اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ تا ہے۔

کاشتکاروں کو غیر معیاری بیج فراہم کیا جاتا ہے اور وہ بھی مہنگے داموں جسکے نتیجے میں دگنابیج استعمال کرنا پڑتا ہے اور بوائی کا مرحلہ بھی دہرانا پڑتا ہے۔ایک طرف کپاس اگانے کے اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف اسکی قیمت 3سال اور تقریباً یکساں ہے جس سے کاشتکار بد دل ہو کر گنے،چاول اوردیگر فصلوں کی جانب دیکھ رہے ہیں جنھیں کپاس کی جانب مائل رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

حکومت گندم کے کاشتکاروں کو19 ارب روپے سے زیادہ، چاول کے کاشتکاروں کو11 ارب روپے سے زیادہ اور گنے کے کاشتکاروں کو 4 ارب روپے سے زیادہ کی مدد فراہم کر رہی ہے مگر کپاس کے کاشتکاروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

کپاس کا معیاری بیج درآمد کرنے، اس شعبے میں قوانین کو بہتر بنانے، مقامی طور پرریسرچ کے بعد کپاس کا بہتر بیج بنانے جبکہ کاشتکاروں کو سستے قرضے اور مداخل پرسبسڈی دینے کی ضرورت ہے تاکہ صورتحال بہتر ہو سکے ورنہ آئندہ فصل میں کاٹن کا شارٹ فال70 لاکھ گانٹھوں سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔

Related Posts