عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے سرکاری اسپتالوں کا معیار بہتر بنانا ہوگا، خیر النساء خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

director nursing

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا میں ڈاکٹر، نرس اور اسپتال کے بغیر کسی مہذب معاشرے کا تصوربھی محال ہے، آج علاج معالجے کی سہولتیں کتنی ہی بہتر کیوں نہ ہوں، معالجین کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں لیکن جب تک اس پورے نظام کو تربیت یافتہ نرس کی سہولت حاصل نہ ہو، علاج معالجے کا نظام کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔

نرسوں کی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے اور ڈائریکٹر نرسنگ سندھ خیرالنساء خان اس مقدس پیشے کو مزید باوقار بنانے اور نرسز کی تعلیم کیلئے اہم خدمات انجام دے رہی ہیں۔ایم ایم نیوز نے خیرالنساء خان کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایم ایم نیوز:علاج معالجے کے دوران نرسنگ کی کتنی اہمیت ہے؟

خیرالنساء خان: کسی بھی مریض کے علاج معالجے کے دوران نرس کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے، نرس مریض کو ادویات دینے اور دیکھ بھا ل کے ساتھ ڈاکٹر کو بھی پل پل باخبر رکھتی ہے اور 24 گھنٹے مریض کی دیکھ بھال کے علاوہ تیمار داری کے فرائض بھی انجام دیتی ہے اگر نرس کو نکال دیا جائے تو اسپتال کا تصویر ہی ختم ہوجائیگا۔

ڈاکٹر صرف تجویز دیتا ہے لیکن ایک نرس اپنی محنت، لگن اور خلوص سے مریض کو نئی زندگی دیتی ہے اور ہیلتھ کیئرسسٹم میں نرس کو ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے جس کے بغیر سسٹم چلنا ناممکن ہے۔

ایم ایم نیوز:ملک میں نرسنگ کے شعبہ کو زیادہ عزت کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھا جاتا؟

خیرالنساء خان: جیسے ڈاکٹرز میں اتائیت کا مسئلہ ہے ویسے ہی نرسنگ کا شعبہ بھی اتائیت کی وجہ سے اپنے حقیقی مقام یا عزت سے محروم ہے کیونکہ کچھ مفاد پرست عناصر یونیفارم پہنا کر جعلی نرسز کو چھوٹے یا سستے اسپتالوں میں رکھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے پورے شعبے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ہم ہیلتھ کیئر کمیشن سے درخواست کرتے ہیں کہ نرسز کے مقدس پیشے کو بدنام کرنے والے عناصر کا محاسبہ کیا جائے اور کوالیفائیڈ نرسز کے لائسنس چیک کئے جائیں پھر انہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔حقیقی نرسز کے رویئے کا اگر ہم جائزہ لیں تو ہمارے پاس نرسز کی تعداد بہت کم ہے اور ایک نرس کو مریض کے ساتھ جس طرح رویہ رکھنا چاہیے کام کےدباؤ کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے اس لئے لوگ نرسز سے خائف رہتے ہیں اس کی اصل وجہ کام کا دباؤ اور تعداد کی کمی ہے۔

ایم ایم نیوز: نرسنگ کی تعلیم میں مردوں اور خواتین کے مابین فرق کی وجہ کیا ہے ؟

خیرالنساء خان: آج کے دور میں مرد اور خواتین نرس کے درمیان جنس کی تفریق ختم ہوچکی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ آج ہمارے پاس لڑکیوں سے زیادہ لڑکے نرسنگ کیلئے آرہے ہیں اور اچھے خاندانوں اور امیر فیملیوں کے بچے بھی سرکاری اداروں کے علاوہ نجی اداروں سے تعلیم حاصل کرکے نرسنگ میں آرہے ہیں۔

ہم مردو خواتین کے علاج کی سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں کو داخلہ دے رہے ہیں تاکہ توازن برقرار رہے ۔لڑکوں کو زیادہ تعداد میں داخلہ دیتے وقت ہمیں یہ بھی سوچناپڑتا ہے کہ مرد مریضوں پر خاتون نرس کو تو کام کرنے کی اجازت ہے لیکن خاتون مریض کو اگرمرد نرس ٹریٹ کرتاہے تواس پر اعتراض سامنے آتا ہے اس لئے ہمیں ان تمام چیزوں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔

ایم ایم نیوز:کیا آج کے دور میں اب کوئی فلورنس نائٹ انگیل پیدا ہونا ممکن ہے؟

خیرالنساء خان: آج کے دور میں بھی فلورنس نائٹ انگیل پیدا ہونابالکل ممکن ہے، نرسنگ کا شعبہ بہت آگے جاچکا ہے اور ہمارے پاس ایک فلورنس نہیں بلکہ بے شمار فلورنس نائٹ انگیل ہیں، ایک خاتون نرس اسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال کے علاوہ گھر میں بچوں کو بھی سنبھالتی اور پورے کنبے کی دیکھ بھال کرتی ہے اور اگر پروفیشن کی بات کی جائے تو نرسنگ کے شعبہ میں آج ریسرچر، ہائی کوالیفائیڈنرسز موجود ہیں اور بہت بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے۔

ایم ایم نیوز:سندھ میں نرسنگ کے شعبہ کو کن مشکلات کا سامنا ہے ؟

خیرالنساء خان: نرسنگ کے شعبہ کو سب سے زیادہ مختلف مافیاز کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں اور غلط کام کرنے کیلئے اکثر بلیک میل کیا جاتا ہے اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن مجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنی قبر میں جانا ہے اس لئے میں کبھی غلط کام کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی اور الحمد اللہ ہم نے میرٹ سسٹم کو برقرار رکھا اورآگے بھی تعلیم و تربیت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔مافیاز کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر قیمتی انسانی زندگیوں کو داؤ پر نہیں لگائینگے ، ڈٹ کر مقابلہ کرینگے۔

ایم ایم نیوز:آپ کے آنے کے بعد نرسنگ کے معیار میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟

خیرالنساء خان: میں نے جب ذمہ داری سنبھالی تو چیزیںالجھی ہوئی تھیں اور امتحان ایک سال پیچھے تھا لیکن ہم نے چیزوں کو بہتر کیا اور امتحان کو مستقل کیا لیکن کورونا کی وجہ سے سسٹم کو دوبارہ بیک کرنا پڑااور کچھ گزشتہ ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے مسائل درپیش تھے لیکن ہم نے امتحانی نظام دوبارہ بحال کیا اور کورونا ایمرجنسی کے باوجود امتحان لیا اور جعلی داخلوں کو امتحانی بورڈ سے نشاندہی کرکے نکالا گیا اور ہمارے 5 ہزار سے نرسز تعلیم مکمل کرکے خدمات انجام دے رہے ہیں اور ہمارے نرسز نے کورونا وباء کے بھی سرٹیفکیٹ حاصل کئے ہیں۔ہم نے سی سی ٹی وی کیمروں کے علاوہ مانیٹرنگ کا نظام متعارف کروایااور ورکشاپس منعقد کروائیں اور نظام بھی تیار کیا۔

ہم نے تنازعات سے بچنے اور مستقبل کو سامنے رکھ کر چیزوں کو اس انداز سے آن لائن سسٹم میں ڈھال دیا ہے کہ اب اگر کوئی سوال اٹھاتا ہے تو اس کو جواب دینے کیلئے سسٹم موجود ہے اورپالیسیاں اور قوانین سسٹم کا حصہ بننے کے بعد مشکلات میں کمی آئی ہے اور آج سندھ کا نرسنگ سسٹم سب سے بہترین ہے اور ہمارے پاس سب سے زیادہ ماسٹرز موجود ہیں اور جب آپ ایک نظام بنادیتے ہیں تو چیزوں خود بخود ٹھیک ہوجاتی ہیں۔

ایم ایم نیوز:مستقبل میں نرسنگ کے شعبہ کی بہتری کیلئے کیا منصوبہ ہے ؟

خیرالنساء خان: مستقبل میں ہم نرسز یونیورسٹی کا منصوبہ بنارہے ہیں اور اگلے پانچ سال میں ہم اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرینگے،سندھ کے 12 اضلاع میں نرسز کالجز نہیں ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ان اضلاع میں نرسنگ کالجز بنائے جائیں اوربی ایس مڈوائفری چار سالہ کورس شروع کرنا ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی منصوبے تیار کئے جارہے ہیں جن کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا۔

ایم ایم نیوز:ایک خاتون افسر ہونے کی وجہ سے کن مسائل کا اکثر سامنا رہتا ہے ؟

خیرالنساء خان: خاتون ہونے کی وجہ سے بہت سی جگہوں پر مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ میرے شوہر ہمیشہ میرا ساتھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے مجھے پوری طرح دفتر کو وقت دینے کا موقع ملتا ہے۔

میری ذمہ داریوں کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی میرے شوہر اور بچے دے رہے ہیں جن کی وجہ سے آج میں نرسنگ کے شعبے میں اصلاحات لانے میں کامیاب ہوپائی۔

ایم ایم نیوز:ڈاکٹرسیمی جمالی کی خدمات اور ڈاکٹر شاہد رسول کی آمد کو کیسے دیکھتی ہیں؟

خیرالنساء خان: ڈاکٹر سیمی جمالی ایک بہت اچھی ایڈمنسٹریٹر تھیں اور اپنے دور میں انہوں نے شاندار خدمات انجام دیں اور ہمیں امید ہے کہ ڈاکٹر شاہد رسول اسی طرح چیزوں کو اچھے انداز سے لیکر آگے چلیں گے۔

ایم ایم نیوز:سرکاری اسپتالوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے کیا کرنا چاہیے ؟

خیرالنساء خان: سرکاری اسپتالوں میں کچھ بنیادی مسائل ہیں جیسا کہ جب تک عملے کی کمی پوری نہیں ہوگی تب تک ہم معیار بہتر نہیں بناسکتے اور جب معیار خراب ہوگا تو عوام کا اعتماد نہیں بحال ہوگا ۔ سرکاری اسپتالوں میں دوسرا مسئلہ جدید آلات کی کمی ہے۔

اگر ہم نجی اسپتالوں کی طرف دیکھیں تو وہاں بہت اچھے آلات دیکھنے کو ملتے ہیں اور سرکاری اسپتال کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کا دباؤ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہم معیاری خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

حکومت عوام کو بہتر خدمات کی فراہمی کیلئے زیادہ سے زیادہ اسپتال بنائے اور اسٹاف نرسزکی آسامیاں پیدا کی جائیں تاکہ عملے کی کمی کو پورا کرکے خدمات کے معیار کو بہتر بنایا جاسکے۔

Related Posts