جابر کے سامنے کلمۂ حق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہر بار جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو اس کے کچھ نہ کچھ اچھے یا برے نتائج ضرور ہوتے ہیں۔ جو الفاظ ہم گفتگو کے دوران بولتے ہیں ان کا ایک تاثر اور مطلب ہوتا ہے۔ جو حدیث اس مضمون کی بنیاد فراہم کرتی ہے، اس کی دو مندرجہ ذیل روایات ہیں:

پہلی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد کی بہترین قسم یہ ہے کہ جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق (یعنی سچ) کہا جائے جبکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد کی بہترین قسم جابر حکمران کے سامنے عدل کی بات کرنا ہے۔

دونوں صورتوں میں حدیث آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ مشکلات کا سامنا کریں اور جابر حکمران کے جبر کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے اپنی آواز کو ظلم کے خلاف استعمال کریں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ اللہ تم پر زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ اگر اس حدیث کے مطابق کوئی شخص کسی جابر کے سامنے عدل کی بات کرتا ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ طاقتور شخص کے سامنے بے بس ہے، لیکن وہ یہ بات سمجھتا ہے کہ آخری اور حتمی قوت اللہ کے پاس ہے۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے لیے اہم کیا ہے، اگر ہماری کوشش سے کوئی تبدیلی پیدا نہ بھی ہوتی ہو تو وہ کوشش جو ہم کرتے ہیں، اہمیت کی حامل ہے۔ تبدیلی کا ذمے دار اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، ہمارا کام بس کوشش کرنا ہے ۔

کسی بھی جابر کے سامنے سچ بولنے کے مختلف راستے ہوسکتے ہیں:

سب سے پہلا راستہ نصیحت کا ہے جس میں کسی بھی شخص کو حق بات سمجھائی جاسکتی ہے۔ اس میں صاحبِ اختیار شخص کو یہ یاد دلانا چاہئے کہ اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کا حق مارتا پھرے۔ اس کا مقصد اس کے غلط کارناموں سے پردہ ہٹانا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو درست کرسکے۔ آپ کو مخلص ناصح بننا ہوتا ہے۔ مقصد یہ نہیں کہ بہادری دکھا کر آپ مشہور شخصیت بن جائیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ آپ معاشرے کو جبر سے نجات دلانے کا باعث بنیں۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ اعتراض کی صورت میں سچ بات کہیں تاکہ جابر کو یہ بتایا جاسکے کہ وہ کوئی ناقابلِ تسخیر طاقت نہیں اور اسےبھی احتساب کا سامنا کرنا ہوگا۔ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عوام کو حق دے رکھا تھا کہ اگر وہ کوئی غلطی کریں تو ان کا احتساب کیا جائے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس بات کو جہاد کی سب سے عظیم قسم کیوں کہا گیا؟

امام خطابی نے کہا کہ جب دو اشخاص میدانِ جنگ میں لڑ رہے ہوں، عام طور پر وہ ایک برابری کی سطح رکھتے ہیں، تاہم یہ برابری کی سطح اس وقت موجود نہیں ہوتی جب آپ کسی جابر کے سامنے کلمۂ حق کہتے ہیں۔ جابر کے پاس قوت ہوتی ہے اور آپ کے پاس صرف حوصلہ اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد واعتبار۔

علماء کا ایک اور گروہ یہ کہتا ہے کہ اگر آپ کسی حکمران کی اصلاح کریں یا اسے سمجھائیں تو اس سے معاشرے کا عظیم حصہ مستفید ہوسکتا ہے جس کیلئے آپ کو کوئی خون نہیں بہانا پڑتا اور جنگ و جدل اور ظلم و تشدد کے منفی اثرات سے گزرنا نہیں پڑتا۔ اس طرح کوئی نقصان اٹھائے بغیر معاشرے کی اصلاح کا عظیم مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔

دوسرے گروہ میں شامل علماء کے مطابق ذاتی جہاد کے سیاق و سباق کو دیکھنا اہم ہے جس میں آپ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ عام طور پر ایسی صورتحال میں جب کسی اور شخص کے پاس زیادہ اختیارات ہوں، خوف اس کے سامنے آنے والے ہر انسان کو بات کرنے سے روک دیتا ہے جبکہ یہ خوف اللہ تعالیٰ پر اعتماد کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ دل کی ایک بیماری ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے کلمۂ حق کہنا اس بیماری سے لڑنے کے مترادف ہے۔

اس لیے اسے جہاد کی بہترین قسم کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں نفس کے خلاف جہاد اور جابر کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی دونوں صورتیں موجودہیں۔ اس سے نفس کی اصلاح اور معاشرے کا فائدہ دونوں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر آپ کسی حکمران کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہ ہوں تو کلمۂ حق بلند کرنے کے عمل میں دوسروں کیلئے عزم و حوصلے کی مثال بن جاتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ دیگر لوگ کلمۂ حق کہنے میں آپ سے بہتر ثابت ہوں۔ اس بات سے حکمرانوں کے دل میں بھی اس بات کا خوف بٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی ناانصافی جاری رکھی تو لوگ ان پر انگلی اٹھا سکتے ہیں۔اگر بولنے کا اثر فوری یاگہرا نہ ہو ، تب بھی اس کا اہم مطلب ضرور ہوتا ہے۔

لوگوں کو ان کا خوف جابر حکمرانوں اور جبر کے سامنے بات کرنے سے روکتا ہے۔ عظیم ترین ڈر موت کا ہوتا ہے اور اس طرح عظیم ترین جہاد یہ ہے کہ اس خوف کے باوجود سچ بولا جائے۔

یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو احادیث کا ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے جو کلمۂ حق کہنے میں آڑے آنے والے خوف پر قابو پانے کی اہمیت واضح کرتی ہیں۔

1۔اگر تم کوئی ایسی چیز دیکھو جس پر بات کرنا ضروری ہو تو(ضروری ہے کہ) لوگوں کا خوف تمہیں سچ بولنےسے نہ روکے۔ ایسا کرنے سے تمہاری عمر کم نہیں ہوگی اور نہ ہی تمہاری دولت میں کوئی کمی آئے گی۔

2۔میری امت پر اگر ایساوقت آئے جب کوئی بھی شخص کسی جابر سے کلمۂ حق نہ کہہ سکے تو پھر اے جابر تمہیں بھی ان کے درمیان سے چلے جانا چاہئے۔

دوسری حدیث کے حوالے سے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے مراد یہ نہیں کہ امت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائےبلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب امت ظلم کو ظلم بھی نہ کہہ سکے تو امت لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہوگا۔

ہم پاکستانیوں کیلئے ان تمام باتوں میں سبق یہ ہے کہ حکومت پر مخلصانہ نکتہ چینی صرف جمہوری عمل نہیں بلکہ اس کی اساس ہمیں اسلام سے ملتی ہے۔نکتہ چینی سے حکومت کی کارکردگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ یہ ہمیشہ شہریوں اور اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جابر حکمرانوں اور آمروں کے سامنے کلمۂ حق کہیں، نہ کہ سیاسی وابستگیوں کے اعتبار سے مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔

سب سے آخر میں شیخ عمر سلیمان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس کالم کے حوالے سے معلومات اور مثال بنے، کیونکہ یہ کالم ان کی سماجی انصاف پر 40 احادیث کی سیریز پر مبنی ہے۔دُعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی اسلام کیلئے خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں اصلاحِ معاشرہ کی کاوشوں پر اجرِ عظیم عطا کرے۔ میری تحریر میں آپ کو جو خوبیاں نظر آئیں وہ اللہ تعالیٰ کی دین ہیں جبکہ یہاں نظر آنے والی تمام خامیاں سراسر میری بشری کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔