ڈاکٹر قدیر خان سے متعلق پوشیدہ حقائق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیاسی تصادم اور سول ملٹری بالادستی کے قضیے پچھلے تین دنوں سے سوشل میڈیا پر چھائے ہیں، ایسے میں ایک بہت بڑے آدمی کا دنیا سے رخصت ہوجانا غیر اہم ہوگیا۔جانے والا مگر پاکستانی ریاست اور قوم کا اتنا بڑا محسن ہے کہ اگلی نسلوں تک ہمیں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔یہ حقیقت تب زیادہ بڑی ہوجاتی ہے، جب ہم نے اپنے محسن کے ساتھ بڑی زیادتیاں کی ہوں، ان کی روح پر ایسے گہرے چرکے، خراشیں ڈالی ہوں کہ آخری سانسوں تک وہ دکھی رہے۔ اس تحریر کا مقصد ریکارڈ درست رکھنے کے لئے وہ واقعات سامنے لانا ہے۔

ڈاکٹر قدیر خان کو سب سے زیادہ دکھ دو پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں اٹھانے پڑے ۔ اپنے انٹرویوز میں وہ برملا کہتے تھے کہ مجھے سب سے زیادہ دکھ میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف نے پہنچائے۔

میاں نواز شریف کا معاملہ عجیب ہے ، ڈاکٹر قدیرخان کے ساتھ ان کا براہ راست کوئی ایشو نہیں بنا۔ اختلاف یا مفادات کا ٹکراﺅ بھی بظاہر نہیں تھا۔ یوں لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کی عظیم الجثہ انا کو پاکستانی ایٹمی پروگرام کے بانی کی شخصی مقبولیت یا کشش سے چڑ ہوگئی تھی۔ میاں نواز شریف دراصل ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد خود کو اس حوالے سے بلاشرکت غیر ے قسم کا قومی ہیرو بنانا چاہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف کا عالمی دباﺅ کو مسترد کر کے ایٹمی دھماکے کرنا ایک بڑا کام تھا، انہیں اس کا مکمل کریڈٹ ملنا چاہیے ۔ یہ کام مگر ڈاکٹر قدیرخان کا قد چھوٹا کرنے کی کوششوں سے نہیں ہونا چاہیے تھا۔

ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد معروف کالم نگار نذیر ناجی سے ایک کالم لکھوایا گیا جس میں بڑے طریقے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ناجی صاحب تب وزیراعظم نواز شریف کے سپیچ رائٹر تھے اور ان کے قریبی بااعتماد ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ نذیر ناجی نے کالم میں لکھا کہ چاغی میں ایٹمی دھماکوں سے کچھ دیر پہلے ڈاکٹر قدیر خان وہاں پہنچے تو وہ حیرت سے وہاں لگی مشینیوں اور آلات کو دیکھ رہے تھے، انہوں نے موقعہ پر موجود سائنس دانوں سے ان کے بارے میں سوالات بھی پوچھے۔ ناجی صاحب یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے کہ ڈاکٹر قدیر خان سائنس دان نہیں ، ان کا ایٹم بم بنانے میں بہت تھوڑا سا حصہ ہے اور دھماکوں کے پورے معاملات کی انہیں بالکل تکنیکی معلومات نہیں تھیں۔ یہ بات سراسر غلط تھی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہواتھا۔ ویسے بھی 1998میں ایٹمی دھماکوں سے چودہ سال پہلے چاغی کی یہ جگہ طے کی جا چکی تھی، وہاں بہت کچھ ہوا تھا جو ڈاکٹر قدیر خان کی زیرنگرانی ہی ہوا۔ تب ثمر مبارک مند اور دیگرڈاکٹر قدیر خان مخالف سائنس دانوں کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔

ایٹمی دھماکوں کے چند دن بعد لاہور اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں راتوں رات بڑے بڑے بینر لگ گئے جن میں ایٹمی دھماکہ کرنے پر سائنس دان ڈاکٹر ثمرمبارک مند کا شکریہ ادا کیا گیا۔ یہ ثمر مبارک مند کو ڈاکٹر قدیرخان کے مقابلے میں ہیرو بنانے کی پہلی کوشش تھی۔ اگلے چند ماہ میں متواتر حکومتی میڈیا ٹیم ثمرمبارک مند کو سامنے لاتی رہی، ان کے انٹرویوز کرائے گئے ، امیج بلڈنگ کی گئی ۔

میاں صاحب کے قریبی صحافتی حلقے ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کو خدشہ تھا کہ ڈاکٹر قدیر خان صدر پاکستان بننے کی خواہش کرنے لگیں گے۔ میاں صاحب کے سرپرست بزرگ ایڈیٹر مجید نظامی اس کا مشورہ دے چکے تھے۔ میاں صاحب اپنی پسند کے بندے کو صدر بنانا چاہتے تھے جو ان کے آنکھ کے اشارے کو سمجھے اور منہ بند رکھے۔ایک ربڑسٹمپ۔ بعد میں ایسا ہی کیا گیا۔

ڈاکٹر قدیر خان اپنے خلاف چلائی جانے والی اس مہم سے سخت رنجیدہ اور دکھی ہوئے۔ انہیں افسوس تھا کہ ناحق نشانہ بنایا جا رہا حالانکہ وہ صدر بننے کی قطعی آرزو نہیں رکھتے تھے۔

ڈاکٹر قدیر خان کو دوسرا بڑا دھچکا اور عوامی سطح پر زیادہ تکلیف اور کرب سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں گزرنا پڑا۔ تب پاکستان پر ایٹمی حوالوں سے اچانک شدید دباﺅ آیا۔ دراصل تیسری دنیا کے کسی ملک کے لئے ایٹم بم بنانا پہاڑ سے دودھ کی نہر نکالنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ اس کے لئے بے پناہ جتن کرنے پڑتے ہیں، بہت جگہوں پر” لین دین“ کی صورتحال بنتی ہے، بہت کچھ قاعدوں ضابطوں سے ماورا کرنا پڑتا ہے، تب جا کر منزل ملتی ہے۔ ایسے کچھ معاملات میں جب دباﺅ بڑھا تو جنرل مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومتی عمائدین کا وفد ان سے ملا اور کردہ ، ناکردہ کاموں کا بوجھ اٹھانے کے لئے آمادہ کیا گیا۔

ڈاکٹر قدیر خان تیار نہیں ہوئے، پھر چودھری شجاعت حسین نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور مختلف جذباتی ، حب الوطنی کے حوالے دے کر رضامند کیا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے ٹی وی پر آ کر اپنا وہ مشہور اعترافی بیان ریکارڈ کرایا۔ طے یہ ہوا تھا کہ اس کے بعد ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور رسمی طور پر وہ چند دن کی سکیورٹی تحویل میں رہنے کے بعد لو پروفائل میں چلے جائیں گے۔ ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ وعدے پورے نہیں کئے گئے۔ طویل عرصہ وہ نظربند رہے ، اس دوران انہیں حکومتی اہلکاروں کے ناروا سلوک کی شکایات بھی ہوئیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومتی میڈیااور عمائدین نے ڈاکٹر قدیر کو قومی مجرم بنانے کی مذموم کوشش کی۔ یہ صریحاً زیادتی تھی۔ ڈاکٹر قدیر خان نے یہ گہرا زخم دل پر برداشت کیا اور تا حیات وہ اس پر کڑھتے رہے کہ میری کاوش ، ایثار اور قربانی کا یہ صلہ ملا؟

میر ظفراللہ جمال تب وزیراعظم تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ مشرف نے ڈاکٹر قدیر کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا اور اس مقصد کے لئے سی آئی اے کا جہاز بھی آگیا تھا، مگر انہوں نے بطور وزیراعظم اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور جنرل مشرف کو پیغام بھجوایا کہ ایسا کرنے سے ہمارے چہروں پر تاحیات کالک لگ جائے گی اور پھر عوامی اشتعال کے باعث خانہ جنگی کی صورتحال نہ پیدا ہوجائے۔

ڈاکٹر قدیر خان کے مالی وسائل کے حوالے سے بھی ان کے مخالفین اور ناقدین بہت کچھ غلط اور جھوٹ بولتے رہے۔ انہیں کروڑ پتی ، ارب پتی کہا گیا۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جیسے بے لحاظ لوگوں نے ان کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے ایک بار تو بنی گالہ میں علامتی قبر تک بنا دی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے قریبی ساتھی ان کی دیانت داری کی قسم اٹھاتے ہیں۔ زاہد علی اکبر خان سے لے کر ڈاکٹر سلطان بشیرالدین محمود سب یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر قدید انتہائی دیانت دار تھے اور انہوں نے کبھی ایک پیسے کو بھی ادھر ادھر نہیں کیا۔ ان کی تنخواہ اچھی تھی، مگر وہ کشادہ دست انسان تھے، غریبوں کی دل کھول کر مدد کرتے تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں ان کی پنشن کے اور دیگر مالی مسائل پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے تب قلم کے ذریعے آمدنی بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ادب کا وہ گہرا مطالعہ کرتے آئے تھے، لکھنے پڑھنے سے شغف تھا۔ انہوں نے اردو کالم لکھنے کا اعلان کیا۔

اس حوالے سے دلچسپ معاملہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظربندی اور پرویز مشرف حکومت کے جبر کے حوالے سے روزنامہ نوائے وقت نے بڑے زوردار انداز سے ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دیا۔ مسلسل ان کے حق میں ادارئیے ، کالم لکھے جاتے رہے، کئی سال تک اخبار میں ڈاکٹر صاحب کی رہائی کے لئے اشتہار شائع ہوتا رہا۔قارئین سمجھتے یہ اخبار کی انتظامیہ کی جانب سے چھپتا ہے۔ ایک دن نوائے وقت کے سب سے بڑے مخالف اخبار روزنامہ جنگ نے اعلان چھاپا کہ کل سے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیرخان جنگ میں کالم لکھیں گے۔

یہ خبر نوائے وقت مالکان پر بجلی بن کر گری۔ مجید نظامی سخت برہم ہوئے، انہوں نے اپنا غصہ چھپانے کے بجائے اخبار میں اس کا بھرپور اظہار کیا اور ڈاکٹر قدیر خان سے شکوہ کیا گیا کہ اتنے سال تک ہم نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ نے ہمارے حریف اخبار میں کالم لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر سخت عوامی ردعمل آیا۔ نوائے وقت کے بے شمار قارئین نے احتجاجی خط لکھے، فون کئے اور انتظامیہ کو خوب سنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبار نے کیا یہ سب اصولی موقف کے طور پر کیا یا ان کا مقصد مستقبل میں ڈاکٹر قدیر سے فائدہ اٹھانا تھا؟قارئین نے اسے کم ظرفی پر محمول کیا۔

اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بتائی جاتی ہے کہ مجید نظامی صاحب کے کہنے پر ان کے بھتیجے اور نیشن کے ایڈیٹر عارف نظامی نے ڈاکٹر قدیر خان کو فون کیا اور شکوہ کیا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے صاف گوئی سے بتایا کہ میرے مالی حالات خراب ہیں، گھر کا خرچ چلانے کے لئے کالم لکھنے کا سوچا ہے، جنگ اخبار نے دو لاکھ روپے ماہانہ کی پیش کش کی ہے۔ اگر مجید نظامی ڈیڈھ لاکھ ماہانہ دے دیں، تب بھی میں جنگ کے بجائے نوائے وقت میں کالم لکھنا شروع کر دوں گا۔ مجھے دو لاکھ ماہانہ کی ضرورت ہے، مگر اپنے اخراجات کچھ ٹائٹ کر کے ڈیڑھ میں گزاراکر لوں گا۔

کہا جاتا ہے کہ عارف نظامی یہ سن کر بھونچکا رہ گئے۔ انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ محسن پاکستان جس کے کنٹرول میں اربوں کے فنڈز رہتے تھے، جس نے پاکستان کو دنیا کی واحد مسلم نیو کلیئر قوت بنایا، اس کے پاس آج گھر چلانے کے بھی پیسے نہیں اور ایک سائنس دان کو اس مقصد کے لئے قلم کے ذریعے روزی کمانا پڑ رہی ہے۔ بعد میں اپنے ایک سینئر ساتھی کو عارف نظامی نے بتایا کہ مجھے ڈاکٹر قدیر خان کا موقف درست لگا، ان کے مالی مسائل ہیں، وہ کیا کریں؟مجید نظامی صاحب ان سے لکھوانا چاہتے ہیں تو ڈیڑھ لاکھ ماہانہ کون سی بڑی رقم ہے؟

اس حوالے سے ایک اور دلچسپ اور مصدقہ خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی کے حوالے سے جو اشتہار نوائے وقت مسلسل لگاتا رہا ، وہ مفت نہیں لگایا جاتا تھا۔ اس کے لئے ڈاکٹر قدیر خان کا ایک گمنام مداح باقاعدہ پیسے بھجواتا رہا۔ دوسرے الفاظ میں نوائے وقت نے وہ اشتہار لگا کر ڈاکٹر قدیر خان پر کوئی احسان نہیں کیا تھا بلکہ اپنے پیسے کھرے کئے تھے۔اس کی تصدیق ان دنوں اس اخبار میں کام کرنے والے بہت سینئر اور ذمہ دار صحافی نے کی۔ انہوں نے کہا کہ نوائے وقت میں ایسے بہت سے اشتہار شائع ہوتے تھے جن کی پیمنٹ کرنے والے اپنا نام دینا پسند نہ کرتے اور مفاد عامہ میں وہ اشتہارچھپواتے رہتے۔

جنرل زاہد علی اکبر کئی سال تک کہوٹہ پروگرام کے پراجیکٹ ڈائریکٹر رہے، ان کا ڈاکٹر قدیرخان سے گہرا تعلق رہا۔ لاہور کے معروف تھنکرز فورم سی این اے میں زاہد علی اکبر نے دو تین گھنٹے تک بڑی تفصیل سے ان واقعات کو شیئر کیا تھا۔زاہد علی اکبر کے مطابق ڈاکٹر قدیر خان میں بیک وقت نہایت سادگی، درویشی اور سمجھداری کے عنصر موجود تھے۔ وہ سادگی سے ادھر ادھر گھومتے رہتے، کھانے کے وقت لیبر کے ساتھ بیٹھ کر بھی کھانا کھا لیتے، کسی ریڑھی والے سے بھی لے کر کھانے میں عار نہیں تھا۔ دوسری طرف انہیں احساس تھا کہ ایک اعلیٰ کوالیفائیڈ انجینئر، دھاتوں کا ماہر اور فزسسٹ ہونے کے باوجود نیوکلیئر سائنس دان انہیں اہمیت نہیں دیتے اور غیر سائنس دان کہتے ہیں۔ زاہد علی اکبر کے بقول ڈاکٹر قدیر خان ہر روز سنٹری فیوج کے ڈیزائن کی ڈرائنگ بنا کر سائنس دانوں کے حوالے کرتے ، اگلے روزنئی ڈرائنگ انہیں بلا کر دیتے۔

زاہد علی اکبر نے ایک دن کہا ، ڈاکٹرصاحب آپ ایک ہی بار ہفتے بھر کے لئے ڈرائنگ دے دیں۔ ڈاکٹر قدیر خان نے مسکرا کر جواب دیا ، ”تمہیں نہیں معلوم ، یہ مجھے کچھ بھی نہیں سمجھتے ۔ میں بھی انہیں روزانہ احساس دلاتا ہوں کہ اگر میں ہر روز سنٹری فیوج کے ڈیزائن کی ڈرائنگ نہ دوں تو تم سب صفر ہو۔ “دراصل پاکستانی ایٹم بم یورینئم کی افزودگی سے بنا اور اس کے لئے سینٹری فیوج مرکزی اہمیت رکھتے تھے، ان کے ڈیزائن ڈاکٹر قدیر خان نے ہی دئیے ، یہ کام اگر نہ ہوتا تو پاکستان کبھی ایٹم بم نہ بنا پاتا۔

ڈاکٹر سلطان بشیرالدین محمود ممتاز نیوکلیئر سائنس دان ہیں، یہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں رہے ،وہاں سے انہیں کے آریل لیبارٹریز میں بھیجا گیا، یہ ڈاکٹر قدیر خان کے نمبر ٹو رہے۔ انہوں نے ایک نشست میں ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف چلنی والی کمپین کا ذمہ دار گورنمنٹ کالج لاہور کو قرار دیا۔ وہ کہنے لگے ،” میں بھی گورنمنٹ کالج کا پڑھا ہوا ہوں، پرویز بٹ، منیر احمد خان بھی راوین تھے، ہم گورنمنٹ کالج والے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے۔ ایک راوین ، دوسرا پنجابی جبکہ ڈاکٹر قدیرخان ایک طرف مہاجر تھے جبکہ وہ کراچی سے پڑھے تھے تو یہاں کی لابی کے نزدیک ڈاکٹر قدیر کبھی قابل قبول نہیں ہوسکے۔ “ یاد رہے کہ سلطان بشیر الدین محمود ذاتی طور پر ڈاکٹر قدیر کے بڑے مداح ہیں اور اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔

Related Posts