معاشرتی مسائل اور میڈیا کا کردار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حالات سے باخبر رہناکسی بھی انسان کی بنیادی خواہش ہوسکتی اور دور ِ حاضر میں میڈیا کے تمام ذرائع میں سے ٹی وی زیادہ آسان ذریعہ ہے ، ٹی وی کے ذریعے ہر چھوٹی بڑی خبر عام ہونے میں چند سیکنڈ لگتے ہیں، پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے اور ہر چینل محض دوسری سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، مہذب معاشروں میں خبر کی تصدیق کا انحصار تحقیق پر ہوتا ہے جبکہ خبر کی تحقیق کے بعد اس کے اثرات اور مضمرات کو مدنظر رکھ کر عا م کیا جاتا ہے۔

مجھے یاد ہے بطور سب ایڈیٹر ایک معروف اخبار میں  کام کے دوران نیوز ایڈیٹر خبر دیتے وقت اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے ، بھائی صاحب ! خبر میں سے زہر نکال دینا۔ اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہوتا تھا کہ ہم خبر کا زاویہ تبدیل کردیں اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ خبر بھی عوام تک پہنچ جائے اور انتشاربھی نہ پھیلے۔

آج میڈیا کی ترقی دیکھ کر جہاں دل خوش ہوتا ہے وہیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ صحافت سے میڈیا بننے والے چینلز نے سب سے پہلے کی دوڑ میں حقیقی صحافتی اقدار کو کہیں پیچھے چھوڑدیا ہے۔

حال ہی میں کورونا وائرس کی خبر پر جس طرح ہمارے نیوز چینلز نے ایک ہڑبونگ مچائی وہ انتہائی شرمناک عمل تھا۔ کورونا وائرس پاکستان آنا ایک خبر ہے جس کو خبر کے انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا لیکن میڈیا نے اس خبر کو اس انداز میں پیش کیا جیسے خدانخواستہ کوئی قیامت آگئی ہو، ہر نیوز چینلز دوسرے سے زیادہ ہولناک انداز میں معاملے کو بڑھاچڑھا کر پیش کررہا تھا۔

میڈیا کا کام خبر عوام تک پہنچانا ہے لیکن ہمارے ملک میں خبر کیساتھ جوسلوک ہورہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے، میں ایک لطیفہ بیان کرتا ہوں کہ ایک نشئی تبلیغی جماعت سے متاثر ہوکر نشہ چھوڑ کرتبلیغ پر چلا جاتا ہے اور تبلیغی جماعت کے رہنماء جہاں پڑائو ڈالتے ہیں وہاں لوگوں کو اس نشئی کی مثال لوگوں کے سامنے ایسے پیش کرتے ہیں۔

کہ یہ بھائی صاحب پہلے نشہ کرتے تھے اور بفضل خدا نشہ چھوڑ کر تبلیغ میں شامل ہوچکے ہیں۔ تو ایک بار اس سابق نشئی نے رب سے شکوہ کیا کہ خدایا جب تک میں نشہ کرتا تھا تو نے میرا پردہ رکھا اور آج جب میں نشہ چھوڑ کر راستی کی راہ اپناچکا ہوں تو جگہ جگہ میرے ماضی کے قصے عام ہوچکے ہیں۔

تو مقصد بیاں یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو صرف ریٹنگ بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ کورونا وائرس ہو یا نوجوان لڑکا لڑکی کی شادی، کسی کی طلاق کا معاملہ ہو یا کوئی بھی مسئلہ ہو ہمارا میڈیا حقائق جانے بغیر بس یکطرفہ فیصلہ سنادیتا ہے اور نیوز چینلز کے ساتھ نجی ڈرامہ پروڈکشنز کے تحت آج کل پاکستان میں ایسے ڈرامے بن رہے ہیں جن میں ایسے موضوعات کا احاطہ کیا جارہا ہے کہ خود شیطان بھی شرما جائے کہ یہ شرارت تو میں نے کبھی سوچی بھی نہیں جو مجھ سے منسوب کردی گئی ہے۔

ہر ڈرامے میں ساس بہوکی سازشیں،مردوں کے اسکینڈلز، طلاق ، خودکشی اور عمارات کی ایسی کہانیاں گھڑی جارہی ہیں جو کہ کسی طور پر پاکستانی معاشرے  کی عکاسی نہیں کرتیں ۔ کچھ عرصہ قبل ہم بھارتی ڈراموں پر تنقید کرتے تھے کہ بھارتی ڈراموں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہےلیکن آج آپ کوئی بھی پاکستان ڈرامہ دیکھیں تو آپ کو کہیں سے بھی پاکستان معاشرہ کی تصویر نہیں دکھائی دے گی۔

کہانی، لباس اور ڈائیلاگز انتہائی نازیبا ہوتے ہیں کہ آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر شائد ہی دیکھ سکیں۔ شادی شدہ مردوخواتین کے افیئرز، اسقاط حمل، دولت کیلئے بیوفائی اور نجانے کیا کیا پیش کیا جارہا ہے۔ ایک خود ساختہ نمبر ون چینل جس کا سب کچھ ہی نمبر ون ہے اس میں بھارتی رئیلٹی شو بگ باس کی طرز پر ایک شو پیش کیا جارہا ہے جس میں اخلاقیات کی تمام دھجیاں اڑائی جاچکی ہیں لیکن پیمرا کو ہوش آنا تھا نہ ابھی تک آیا ہے۔

پاکستان کے میڈیا میں  یہ کلچر عام ہے کہ آپ کی مرضی ومنشاء کیخلاف کوئی اقدام ہو تو میڈیا کی آزادی کو خطرہ ہوجاتا ہے۔ میڈیا کو حق وسچ عوام تک پہنچانے کی بالکل آزادی ہونی چاہیے لیکن میڈیا کی آزادی کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ کسی بھی بات کو ایسے پیش کریں کہ جس سے عوام میں خوف وہراس یا اشتعال پھیلے۔

ہر خبر کی مکمل تصدیق ، اس کا مثبت ومنفی پہلو اور عوام پر اس کے اثرات کو مدنظر رکھ کر پیش کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن محض ریٹنگ کی دوڑ میں آپ حقائق کو اپنی مرضی سے مصالحہ دار بنانے کر پیش کریں تو یہ غلط ہے۔ اسی طرح ٹی وی پراصلاح معاشرہ کیلئے ڈرامے پیش کئے جائیں اورمعاشرے کے حقیقی مسائل کا احاطہ کیا جائے صرف مخصوص سوچ کے تحت ڈرامے بناکر عوام کو ذہنی مریض  نا بنایا جائے۔