جامعہ اُردو کی سابق قائم مقامVCکیخلاف یونیورسٹی کی دیواروں پراحتجاجی نعرے درج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ اُردو کی سابق قائم مقامVCکیخلاف یونیورسٹی کی دیواریوں پراحتجاجی نعرے درج
جامعہ اُردو کی سابق قائم مقامVCکیخلاف یونیورسٹی کی دیواریوں پراحتجاجی نعرے درج

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: جامعہ اُردو میں انتظامیہ کی کمزور ہوتی ہوئی گرفت کی وجہ سے جامعہ کی پہلی و سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کے خلاف یونیورسٹی کی اندورونی و بیرونی دیواروں پر نعرے درج کئے گئے ہیں، قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو برطرف کرو، طلبا پر ظلم بند کرو، ڈین سائنس ڈاکٹر زاہد کو برطرف کرو کے نعرے دیواروں پر لکھے گئے ہیں۔ یونیورسٹی میں موجودہ کیمروں، سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں نعروں کا درج ہواسوالیہ نشان ہے؟۔

جامعہ اُردو کی انتظامیہ اور اساتذہ و غیر تدریسی عمال کے مابین اختلافات اب یونیورسٹی کی دیواروں پر نعروں کی صورت میں تحریر کئے جانے لگے ہیں، جامعہ اُردو گلشن اقبال کیمپس کی بیرونی دیواروں پر قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر روبینہ مشتاق اور ڈین سائنسز ڈاکٹر زاہد کے خلاف نعرے درج کئے گئے ہیں، جس کی وجہ سے یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ اور یونیورسٹی کے سامنے سے گزرنے والوں پر انتہائی برا اثرپڑرہا ہے، یونیورسٹی کی سیکورٹی انتظامیہ نے ابھی تک نعروں کو مٹانے کے لئے اقدامات نہیں کئے ہیں۔

نامعلوم افراد کی جانب سے درج کئے گئے نعروں میں ”جعلی ڈگری ہولڈر قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو برطرف کرو، ڈین سائنسز ڈاکٹر زاہد کو برطرف کرو، طلبہ پر ظلم بند کرو، طالب علموں کو انصاف دو، خالد صدیقی کو برطرف کرو، جعلی ڈگری ہولڈر خالق صدیقی کو برطرف کرو،بند کرو، بند کرو، طلبا پر ظلم بند کرو، متعصب رجسٹرا رکو برطرف کرو“کے نعرے شامل ہیں۔

حیرت انگیز طور پرجامعہ اُردو گلشن اقبال کیمپس کے تمام دروازوں پرتعینات سیکورٹی گارڈز کی واضح غفلت کی وجہ سے یونیورسٹی کی اندرونی اور بیرونی دیواروں  پر نعرے درج ہوئے ہیں، گلشن کیمپس میں دن کے علاوہ رات کو دروازوں پر تعینات سیکورٹی گارڈز کی تعداد 8سے 10ہے،جب کہ انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے یونیورسٹی میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے بھی کام نہیں کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے کسی کی شناخت کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔

ادھر یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ جامعہ اُردو ابتداء سے اب تک صحیح معنوں میں جامعہ نہیں بن سکی ہے، جس میں سوائے چند کے کوئی بھی مستقل وائس چانسلر اپنی مدت پوری کرسکا ہے نہ ہی زیادہ عرصہ مستقل وائس چانسلر کو چلنے دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: جامعہ باچا خان چارسدہ میں اسسٹنٹ پروفیسر کو دوسری بار براہ راست پروفیسر اورڈین بنا نا غیر قانونی قرار

یونیورسٹی میں اساتذہ کی دھڑے بندیاں، غیر تدریسی عمال کی گروپ بندی،اور اعلیٰ انتظامی اور اکیڈمک عہدے پر بیٹھے افسران کو لاحق عہدے کے خوف سے مسائل کو سنجیدیگی سے حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ہے،جس کی وجہ سے اب یونیورسٹی روڈ جیسی معروف و مصروف شاہراہ پر خاتون پروفیسر و سابق وائس چانسلر کے خلاف نعرے درج ہونا علم کے بجائے جہالت کا منظر پیش کررہے ہیں۔

Related Posts