سادگی سے کامیابی تک

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟

رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ایک اہم سنت سادگی ہے جسے امتِ مسلمہ بھلا چکی ہے اور یہاں ہماری مراد لباس، خوراک یا رہائش کی سادگی نہیں بلکہ سوچنے کے طریقے اور معاملاتِ دین و دنیا میں سادگی اختیار کرنا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ بہت سادگی پسند رہے اور آپ ﷺ کے کچھ اطوار اور روایات ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں سنت کا نام دیا جاتا ہے۔

نبئ مکرم ﷺ اہلِ فطرت تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ساری دنیا کا علم اکٹھا کر کے کوئی ایسا نظام بنانا چاہیں جو ہمیں، دوسروں کو اور ہمارے فطری ماحول کو ایک بھرپور، متوازن اور ہم آہنگی بھری زندگی دے سکے تو ہمیں محسنِ انسانیت ﷺ کی راہ پر چلنا ہوگا۔

سادگی کی سب سے اہم سطح عبادت یا بندگی کے پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہے۔ جب ہم اپنی زندگیوں میں مسائل کو حل کرنے کیلئے سادہ ترین طریقہ کار ڈھونڈتے ہیں تو سنت نبوی ﷺ ہماری رہنمائی کرتی ہے اور اس میں سب سے اہم نماز کا طریقہ ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر صورتحال کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بخشی ہے۔

متفق علیہ کی حدیث ہے کہ ایک شخص حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی خدمت میں جمعے کے روز پہنچا جو نکاح کیے بغیر ایک خاتون کو بوسہ دے بیٹھا اور اب اس کا اعتراف کرنا چاہتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو روکا اور فرمایا کہ اس معاملے پر نماز کے بعد بات ہوگی۔ آپ ﷺ نے نماز کی امامت فرمائی اور جلد ہی مسجد چھوڑ دی کیونکہ آپ ﷺ اس سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن وہی شخص ایک بار پھر آپ ﷺ کی خدمت میں چل کر آگیا اور اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے ہمارے ساتھ ابھی نماز نہیں پڑھی؟ شاید اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل میں پچھتاوے کو دیکھتے ہوئے تمہارا گناہ معاف کردیا ہو۔ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور پنج وقتہ نمازوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے جو گناہوں سے نجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔

ایک اورمستند حدیث (مسند احمد، 21680) سے پتہ چلتا ہے کہ تاجدارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز پڑھنے کیلئے وضو کرتا ہے اور اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ پانی کے گرتے ہوئے قطروں کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں۔ جب وہ اپنا منہ اور ناک دھوتا ہے تو اس کی زبان اور ہونٹوں کے گناہ پانی کا پہلا قطرہ گرتے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ جب چہرہ دھوتا ہے تو سننے اور دیکھنے کے گناہ پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں اور جب وہ کہنیوں تک بازو اور ٹخنوں تک پاؤں دھونا شروع کرتا ہے تو ہر گناہ سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے (معصوم) پیدا ہوا تھا۔ اگر وہ نماز کیلئے کھڑا ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے مرتبے کو ایک درجہ بڑھا دیتا ہے اور اگر وہ بیٹھ جائے تو امن وسلامتی کے ساتھ تشریف فرما ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور حدیث (صحیح ابن ہبان 1769) کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی بندہ نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر اور کندھوں پر رکھ دئیے جاتے ہیں اور ہر بار جب وہ رکوع یا سجدہ کرتا ہے تو گناہ جھڑ جاتے ہیں۔

جسمانی و معاشی طور پر بھی رسول اللہ ﷺ نے سادگی کو اپنی حیاتِ طیبہ کا شعار بنایا۔ سیرتِ نبی ﷺ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک بار مصر کے بادشاہ نے ایک طبیب کو مدینہ کے لوگوں کا علاج معالجہ کرنے کیلئے تحفے کے طور پر بھیجا کیونکہ ان دنوں سعودی عرب میں مصر اور یونان کی طرح طبیب موجود نہیں تھے۔

جب وہ طبیب اور اس کا عملہ مدینہ منورہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے آمد کا مقصد دریافت فرمایا۔ طبیب نے بتایا کہ شاہِ مصر نے ہمیں مدینہ کی طبی ضروریات پوری کرنے کیلئے بھیجا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپسی کی ہدایت کی اور بتایا کہ مدینہ میں طبی خدمات کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ مسلمان اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے جب تک کہ بھوک نہ لگے اور (ضرورت سے زیادہ) کھا کر اپنے معدوں کو بھرتے نہیں ہیں۔ اس حدیث سے صحت اور تندرستی سے متعلق امام الانبیاء ﷺ کے علم  و دانش کا پتہ چلتا ہے۔ آج کل ڈاکٹرز ذیابیطس، موٹاپے اور دیگر امراض کے دوران مریضوں کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ سنتِ رسول ﷺ سے پتہ چلتا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ رمضان المبارک کے علاوہ ہر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے۔

معاشی سادگی کی بات کیجئے تو نبئ مکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ مجھے حرام رزق کی بجائے بقدرِ ضرورت اپنے ہاتھوں سے کمائی ہوئی حلال روزی عطا فرما اور اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری کمائی اور مال و دولت پروردگارِ عالم کی طرف سے آتی ہے۔ اس لیے ہمیں حرام یا دوسروں پر انحصار کی بجائے ہمیشہ اپنے ہاتھوں سے کمائے ہوئے حلال رزق کی دعا کرنی چاہئے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان 4 صحابہ میں سے ایک ہیں جن سے قرآن سیکھنے کی ترغیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے دی۔ ایک بار جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوفے کے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دے رہے تھے تو لوگوں نے شکایت کی کہ جمعرات کے روز آپ نے چند گھنٹوں تک ہی تعلیم دی اور ہم مزید سیکھنا چاہتے ہیں جس پر آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آنحضرت ﷺ ہمیں قرآن کی تعلیم اسی طرح دیا کرتے تھے۔

محسنِ انسانیت ﷺ کا قرآن کی تدریس کا طریقہ ہی کچھ ایسا تھا کہ لوگ قرآن کو مسلسل حفظ اور قرات سیکھ سیکھ کر اللہ کی آخری کتاب کو بوجھ نہ سمجھنے لگ جائیں جس سے یہ احساس ہوتا تھا کہ قرآنِ پاک کتنی عظیم نعمت ہے۔ مزید برآں لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ انتہائی درست اور جامع الفاظ ادا فرماتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی شخص کا نماز کے دورانیے  کو بڑھانا اور خطبے کو مختصر کرنا (ایمان) کو سمجھنے کی نشانی ہے، اس لیے نمازوں کو طویل اور خطبوں کو مختصر کیا جائے تاکہ ان میں کشش برقرار رہے۔ (صحیح مسلم، چوتھی جلد، حدیث نمبر 1889)

شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہ نے عوام سے خطاب کے دوران سادہ بیانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں سے ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرو۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ (کے پیغام) کو مسترد کر دیا جائے؟ (صحیح بخاری، 127)۔ عام طور پر جب پیچیدہ تصورات پر گفتگو کی جائے تو عام انسان کیلئے انہیں سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہم نے اسلام کو اس کی اصلی ہیئت سے بڑھ کر پیچیدہ بنا دیا ہے۔

مثال کے طور پر جب ہمارے معاشرے اور اہلِ خانہ کی بات کی جائے تو ہمیں سادہ سی باتیں سامنے لا کر اجتماعیت اور اتحاد پر توجہ دینی چاہئے، پیچیدہ باتوں پر گفتگو سے تقسیم اور تفریق پیدا کرنا درست نہیں۔ حضورِ اکرم ﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے کہ گروہ کی صورت میں قرآن اس وقت تک پڑھا جائے جب تک کہ اس کی تشریح پر اتفاقِ رائے موجود ہو اور جب اختلاف پیدا ہونا شروع ہو تو قرآن کی تلاوت (وقتِ معین تک کیلئے) ترک کردی جائے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 5060)۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام بحث و تکرار کی چاشنی اور نکتہ آفرینی کی بجائے سادگی کا درس دیتا ہے۔