گلگت بلتستان میں جاری حالیہ مسلکی تنازعات پر وہاں موجود شیعہ اور سنی علماء نے ایک دوسرے کو مناظرہ اور مباہلہ کرنے کا چیلنج کردیا ہے، جبکہ دونوں فریقین کی جانب سے چیلنج قبول کر کے مباہلہ کے دن اور وقت کا تعین بھی کر لیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق 17 مئی کو تنظیم اہل السنت والجماعت گلگت بلتستان کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ تنظیم اہل سنت والجماعت اور دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کے علما اور عمائدین کا اہم اجلاس امیر تنظیم مولانا قاضی نثار احمد صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں گلگت کے گذشتہ اور معروضی حالات پر غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ ایک فریق مسلسل امن و امان کو خراب کرنے پر تلا ہے اور مختلف انداز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا قیام امن اور تحفظ ناموس صحابہ کے لئے جملہ مسلمان آئینی اور جمہوری کردار ادا کریں گے۔ دوسرے مسلک پر توہین صحابہ رضی اللہ عنہم کا مقدمہ بھی درج کروایا جائے گا۔ نیز مناظرہ اور مباہلہ کے چیلنج کو بھی قبول کر کے مقام اور وقت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اجلاس میں آج تک کے حکومتی رویہ اور اقدامات سے مایوسی اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ مذکورہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ایبٹ آباد سے شندور تک مسلمانان گلگت ایک عظیم الشان مارچ کریں گے۔ جس کے لیے مسلمان تیاری شروع کردیں جس کی تاریخ کا اعلان مشاورت کے بعد عنقریب کیا جائے گا۔
دوسری جانب مرکزی امامیہ کونسل گلگت بلتستان نے اسی روز جوابی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے مرکزی خطیب اہل سنت جامع مسجد گلگت کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ آپ کی طرف سے مناظرہ کی دعوت موصول ہونے پر آغا راحت حسین الحسینی صاحب نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کھلے دل سے قبول کیا ہے۔ اگرچہ ہماری طرف سے دعوت حق اخلاص پر مبنی تھا کہ تمام مسلمان مذہب کما حقہ قبول کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کریں۔
چونکہ ماضی میں مناظرے بہت ہوئے جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، لہٰذا اس بار مباہلہ کا فیصلہ ہوا ہے تاکہ حقیقت عیاں ہو اور علاقے سے فساد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو اور حق کا بول بالا ہو۔