وزیرِ خارجہ کا دورۂ ترکی، سہ فریقی مذاکرات اور افغان امن عمل کی صورتحال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیرِ خارجہ کا دورۂ ترکی، سہ فریقی مذاکرات اور افغان امن عمل کی صورتحال
وزیرِ خارجہ کا دورۂ ترکی، سہ فریقی مذاکرات اور افغان امن عمل کی صورتحال

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز اپنا ترکی کا دورہ مکمل کر لیا اور اس موقعے پر سہ فریقی مذاکرات کے انعقاد اور افغان امن عمل میں نئی روح پھونکنے پر ترک قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے۔

بدقسمتی سے استنبول کانفرنس میں طالبان شریک نہ ہوسکے، پھر بھی پاکستان، ترکی اور افغانستان نے سہ فریقی شراکت داری جاری رکھنے کا مشترکہ فیصلہ کیا۔ آئیے دونوں ممالک کے تعلقات، وزیرِ خارجہ کے دورے اور افغان امن عمل سے متعلق گفت و شنید کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاک ترکی تعلقات اور1993ء کی ملاقات

جولائی 1993ء میں وزیرِ اعظم نواز شریف ترکی میں ای سی او کانفرنس میں شرکت کیلئے استنبول پہنچے۔ یہاں دونوں ممالک کے نمائندگان میں پاک ترکی تعلقات پر گفتگو ہوئی۔ ترک اسلامی روایات بھی موضوعِ بحث بنیں۔ ترکی کے صدر سلیمان دیمیرل نے کہا کہ آپ بھی مسلمان ہیں، ہم بھی مسلمان ہیں۔ دونوں بھائی بھائی بھی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم وقت ضائع نہ کریں۔

ترک صدر نے سوال کیا کہ آپ کے پاس ترکی کو فروخت کرنے کیلئے کیا ہے اور ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ترکی آپ کو کیا فروخت کرے گا؟ اس ردِ عمل کیلئے نواز شریف تیار نہ تھے جس کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھی اور ملاقات اختتام پذیر ہوگئی۔

ہارٹ آف ایشیاء استنبول پراسس کانفرنس 

دورۂ ترکی سے قبل وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں منعقدہ نویں ہارٹ آف ایشیاء استنبول پراسس کانفرنس کے موقعے پر ترک ہم منصب میولوت چاوش اوغلوسے سائیڈ لائن ملاقات کی۔

مذکورہ ملاقات کے دوران پاک ترکی تعلقات اور خطے میں سیکیورٹی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان یکساں مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی اقدار کی بنیاد پر گہرے تعلقات استوار ہیں۔

دورۂ ترکی کا آغاز اور استنبول آمد

آج سے 2 روز قبل وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی 23 اپریل کے روز ترکی پہنچے۔ استنبول کے ہوائی اڈے پر ڈپٹی گورنر اور پاکستانی سفیر نے مخدوم شاہ محمود قریشی کو خوش آمدید کہا۔

ترکی میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سہ فریقی اجلاس میں شریک ہونے کیلئے گئے تھے جہاں افغان امن عمل، امریکی فوج کے انخلاء اور خطے کی صورتحال سمیت دیگر اہم پہلوؤں پر گفت و شنید طے تھی۔ 

ترکی بطور اسلامی ملک اور جدید سوچ 

ایک طرف ترکی کا احترام ہم ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے کرتے ہیں تاہم دوسری جانب گزشتہ 20 برس سے ترکی ترقی کی منازل طے کرنے کے نت نئے زاویوں پر سوچ بچار کر رہا ہے۔ ترکی میں اسلامی روایات کی واپسی ہوئی، نئی مساجد تعمیر کی گئیں اور شراب کی فروخت پر بھی حد بندیاں عائد ہوئیں۔

امریکا اور اسرائیل ترکی کو طاقت تسلیم کرنے لگے ہیں۔ آج ترکی کو ایک اسلامی ریاست اور ترک صدر رجب طیب اردوان اور عبداللہ گل کو صلاح الدین ایوبی مانا جانے لگا ہے تاہم 2005ء میں صدر رجب اردوان نے اسرائیلی ہم منصب کو ترکی کے دورے کی دعوت دی۔

جدید سوچ کے تحت 2007ء میں جب اسرائیلی صدر نے ترکی کا دورہ کیا تو ترک حکومت نے ان کا زبردست استقبال کیا اور ترک پارلیمان سے خطاب کا موقع بھی دیا۔ آج ترکی اسرائیل کے ساتھ تجارتی، صنعتی اور سیاحتی تعلقات رکھتا ہے۔ ترک قوم ایک کاروباری ذہن کے ساتھ مذہبی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ 

موجودہ پاکستانی حکومت اور ترکی 

تحریکِ انصاف نے جب سے دورِ اقتدار سنبھالا ہے، پاکستان میں خارجہ پالیسی میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ سفارت کاری کے ذریعے امداد کے حصول کی بجائے سفارتکاری کے ذریعے سرمایہ کاری کو پاکستان لانے پر توجہ دی جارہی ہے۔

ایسے میں گزشتہ ادوارِ حکومت میں ترکی کو صرف مسلم برادر ملک کہنے والی سوچ آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے۔ یہ کاروبار کا دور ہے۔ ترکی کو اسرائیل میں کاروبار نظر آیا تو اس نے اسرائیل کیلئے راستے کھول دئیے۔ اگر لاہور، اسلام آباد یا کراچی میں فضا سازگار ملے گی تو ترک سرمایہ کار یہاں بھی آئیں گے۔ 

دورے کا مختصر احوال

تازہ ترین دورۂ ترکی کا مختصر احوال سناتے ہوئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ میں ترکی کی میزبانی میں منعقدہ استنبول کانفرنس میں شرکت کیلئے استنبول پہنچا۔ استنبول میں سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا۔ افغان امن عمل پر گفتگو ہوئی۔ افغانستان کی تعمیرِ نو اور معاشی استحکام پر بات چیت ہوئی۔ ترک اور افغان وزرائے خارجہ سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں جن میں دو طرفہ تعلقات زیرِ غور آئے۔

مقبوضہ کشمیر پر اپنے بیانیے کا اعادہ کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ترک حکومت نے مسئلۂ کشمیر پر ہماری غیر متزلزل حمایت کی جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ کشمیر پر ترکی کی حمایت ہمارے لیے بڑی حوصلہ افزائی کی بات ہے۔

تجارتی معاملات، پاکستان اور ترکی

فروری 2020ء میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران دونوں ممالک کے مابین عسکری تربیت سمیت 13 مختلف شعبہ جات میں تعاون کو فروغ دینے کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔

باہمی تجارت کا حجم بڑھانے، ٹرانسپورٹ، ریلوے، پوسٹل سروسز، انفراسٹرکچر، ثقافت، سیاحت اور خوراک سمیت مختلف شعبہ جات میں تعاون بڑھانے کیلئے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

حالیہ دورۂ ترکی میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان امن عمل کے حوالے سے گفتگو کی۔ افغانستان میں قیامِ امن سے پاکستان میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مدد ملے گی جس کیلئے ترکی کا کردار بے حد اہم ہے۔ 

Related Posts