سینیٹ الیکشن کی حکمت عملی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سینیٹ کے انتخابات کو ابھی کچھ دن باقی ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں نے سینیٹ انتخابات کے لئے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں تمام جماعتیں گہری دلچسپی لے رہی ہیں، کیونکہ سینیٹ کا الیکشن حکومت اور اپوزیشن کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

پنجاب میں ایک کامیاب حکمت عملی کے بعد تمام امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ہیں۔ اس سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے، مسلم لیگ (ن) جو تحریک انصاف کی انتہائی نقاد ہے، اس نے پہلے ہی پنجاب کی پانچ نشستوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی سینیٹ انتخابات سے متعلق حکومت کے ساتھ ”مثبت بات چیت” ہوئی تھی لیکن وہ سیاسی فوائد تک ہی محدود ہے۔

پنجاب میں سینیٹ انتخابات کے معاملات ہونے کے بعد سب کی توجہ اب سندھ کی جانب منتقل ہوگئی ہے، جہاں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی نگاہ سینیٹ کی گیارہ میں سے پانچ نشستوں پر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا تین جماعتی اتحاد اور ہارس ٹریڈنگ کے خدشات کے ہوتے ہوئے حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے خلاف فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی یا نہیں؟

یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان سے روابط ہوئے ہیں، جو اس صورتحال میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے اور نازک اتحاد کو داؤ پر لگا سکتی ہے۔ تحریک انصاف سندھ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے اور پی ٹی آئی پر طاقت کا استعمال کرنے اور اپوزیشن کے امیدواروں پر دباؤ اور ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔

پیپلز پارٹی اپنے ارکان کی عددی طاقت کی بنیاد پر چھ نشستیں آسانی سے جیت سکتی ہے،لیکن تمام نشستوں پر انتخاب لڑنے کے فیصلے نے ہارس ٹریڈنگ کے سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مطابق سینیٹ کی نشستوں کی الاٹمنٹ پر پی ٹی آئی میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور ناراض ممبران بھی ہیں جو پارٹی ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے خود ہی کام کرنے کو تیار ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پیپلز پارٹی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

اہم توجہ اب سپریم کورٹ پر مرکوز ہے جس نے سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹ کے ذریعے رائے شماری کے انعقاد کے بارے میں اپنی رائے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر اعلیٰ عدلیہ انتخابات کے انعقاد کی تجویز کرتی ہے تو پھر اس سے عمل کا رخ بدلا جاسکتا ہے کیونکہ تمام حکمت عملی اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو الگ الگ رکھ دیا جائے گا۔ اگر اپوزیشن انتخابی گنتی کے لئے غیر متناسب سیٹ جیت جاتی ہے تو اس عمل کی شفافیت پر شکوک و شبہات باقی رہ جائیں گے۔ اس صورتحال سے ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں وزیر اعظم کا موقف درست ثابت ہوجائے گا اور اصلاحات کے مطالبات اٹھائے جائیں گے۔