اسلام آباد: سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے قتل کا کیس قومی اہمیت اختیار کر گیا، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں ملزم کے والدین کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ولید اقبال کی زیرِ صدارت ہوا جس میں ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو بیرونِ ملک فرار ہونے سے روکنے کیلئے ان کے نام پی این آئی ایل (پرویژنل نیشنل آئیڈنٹی فیکیشن لسٹ) میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی جبکہ نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش پر تکنیکی اعتراض سامنے آیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہ قائمہ کمیٹی اجلاس میں اسلام آباد پولیس نے کمیٹی اراکین کو بریفنگ دی۔ اراکین نے ملزم کے والدین کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کردی۔ اس موقعے پر وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر والدین کا نام پی این آئی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کرینگے۔
آئی جی اسلام آباد کی سفارش کے مطابق بریفنگ ان کیمرا دی گئی۔ ایس ایس پی انوسٹی گیشن عطاء الرحمان نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 20 جولائی کو رات 8 بجے ملزم کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ نور مقدم کی لاش جائے وقوعہ سے برآمد کی گئی۔ ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ ظاہر جعفر جرم کے دوران اپنے والدین سے رابطے میں رہا اور والدین کو اسی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے کہا کہ ظاہر جعفر نے والدین سے کیا بات چیت کی، اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس سے پہلے تھراپی ورکرز جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے۔ ملزم نے ایک تھراپی ورکر کو چاقو مار کر شدید زخمی کردیا جس کی سرجری کی گئی، تاحال اس کا بیان ریکارڈ نہیں ہوسکا۔ رکن قائمہ کمیٹی مشاہد حسین سید نے پوچھا کہ تھراپی سنٹر کو کس نے اطلاع دی؟
وفاقی وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ملزم کی والدہ کو گھریلو ملازم نے قتل کے جرم سے آگاہ کیا اور والدہ نے تھراپی سنٹر کو بتایا۔ تھراپی ورکس والوں نے پولیس کو اطلاع کردی۔میں متاثرہ خاندان سے مل چکی ہوں، انہوں نے کیس کی میڈیا کوریج پر اعتراض اٹھایا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا نام بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ گھر کے ملازم نے نور مقدم پر تشدد کی اطلاع فرسٹ فلور سے چھلانگ لگانے کے وقت دی، والدین نے پولیس کو اطلاع نہیں دی بلکہ تھراپی سینٹر کو کال کردی۔ پولیس کو اطلاع دینے سے نور مقدم کی جان بچ سکتی تھی۔ اس لیے بچی کے قتل کے جرم کے دوران والدین کی غفلت ثابت ہوتی ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ہم نے پوری بریفنگ کے دوران یہ بات نہیں سنی کہ ظاہر جعفر کی ذہنی حالت درست نہیں۔ دی گئی بریفنگ کے مطابق ملزم کا ذہنی توازن درست ہے، وہ ہوش و حواس میں ہے اور دماغی طور پر تندرست ہے۔ کمیٹی اراکین چاہتے تھے کہ کیس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کر لی جائیں، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایسا نہیں ہوسکتا۔
خیال رہے کہ اِس سے قبل نور مقدم قتل کیس نے نیا رخ اختیار کر لیا، مقتولہ کے والدین نے دعویٰ کیا کہ 27 سالہ نور مقدم گھر سے جاتے ہوئے بھاری بھرکم رقم ساتھ لے کر گئی تھیں۔
ظاہر جعفر کے ہاتھوں قتل کی گئی جواں سال خاتون نور مقدم کے قتل کے متعلق والدین کے انکشافات نے 2 روز قبل نئے سوالات کھڑے کردئیے۔ کیس کی تفتیش ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔
مزید پڑھیں: نور مقدم گھر سے جاتے ہوئے بھاری رقم ساتھ لے کر گئی۔والدین کا انکشاف