سیکیورٹی رسک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کی لگ بھگ پوری تاریخ میں جمہوری حکومتیں ٹوٹتی آئی ہیں۔ بیشتر مواقع پر ایک جمہوری حکومت کی جبری برطرفی کے بعد جمہوری حکومت ہی آئی اور جو حکومت لائی گئی اسے بھی چلتا کر دیا گیا۔ جبکہ چار بار ایسا ہوا کہ جمہوری حکومت کا بوریا بستر لپیٹنے والے خود آگئے تاکہ غلام رسول کو لالٹین پکڑنے کا درست طریقہ سمجھا سکیں۔

جب لالٹین جنرل ضیاء نے پکڑ رکھی ہو اور مشغول محمد خان جونیجو ہو یا لالٹیں جنرل مشرف نے پکڑ رکھی ہو اور مصروف جمالی و شوکت عزیز ہوں تو مان لینا چاہئے کہ لالٹین پکڑنے کا درست طریقہ سمجھانا ہی مقصود تھا۔ ٹوٹ پھوٹ اور شدید قسم کی سیاسی کشمکش کے اس دور میں ایک بدترین لمحہ وہ ہے جب ایک وزیر اعظم دیکھ رہا ہے کہ اسے صرف اقتدار سے ہی نہیں نکالا گیا بلکہ اس کے عدالتی قتل کا بھی منصوبہ ہے۔

ذرا ایک لمحے کو تصور کیجئے کہ جس شخص نے اس ملک کو اس کے پہلے انجینئرنگ و میڈیکل کالجز دئے، جس نے خلیجی ممالک کے ساتھ معاہدے کرکے لاکھوں پاکستانیوں کے لئے بیرون ملک روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ جس نے 90 ہزار قیدی بھارت سے چھڑائے اور اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس نے پاکستان کو ایٹمی شیلڈ فراہم کرنے کا بندوبست کیا، اس نے ایک لمحے کو سوچا تو ہوگا کہ کیا میرے کام کا صلہ یہی بنتا ہے جو عدلیہ کے ذریعے مجھے دینے کی تیاری ہے ؟

جب کسی کی زندگی داؤ پر لگادی جاتی ہے تو ہر چیز اس کے لئے بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ تب وہ آخری سانس سے قبل اپنا آخری مہلک ردعمل ضرور دیتا ہے۔ مگر قدم بقدم موت کے پھندے کی جانب بڑھتے بھٹو نے ایک لمحے کو بھی نہ سوچا کہ یہ “ملک” میرے ساتھ کیا کر رہا ہے ؟

بھٹو نے صرف یہی سوچا تھا کہ یہ “ضیاء” میرے ساتھ کیا کر رہا ہے ؟ چنانچہ کوئی ایک بھی واقعہ ایسا نہ ہوا کہ بھٹو یا ان کی بیٹی نے پاکستان کے خلاف کچھ کیا ہو، کچھ کہا ہو یا کوئی ایسی سکیم بنائی ہو جس سے ملک پر آنچ آئی ہو۔ یعنی بھٹو نے ضیاء کے کرتوتوں کی سزا پاکستان کو نہ دی۔ یہی صورتحال نواز شریف کے کیس میں رہی۔

نواز شریف کو بھٹو کی طرح سزائے موت تو نہیں دی گئی مگر بھٹو کے بعد وہ واحد وزیراعظم ہیں جنہیں سخت صعوبتوں سے گزارا گیا۔ نواز شریف یا ان کے خاندان نے بھی کوئی ایسا ردعمل نہیں دیا جس میں ملک کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ جس طرح بھٹو فیملی جنرل ضیاء پر فوکسڈ رہی بعینہ شریف فیملی بھی مشرف وغیرہ پر فوکسڈ رہی۔

آج ہی عمران خان کی ایک اور آڈیو لیک ہوئی ہے۔ یہ گفتگو اس موقع کی ہے جب عمران خان ابھی سلیکٹڈ ہی تھے اور ان کے ریجکٹڈ بننے کے دن قریب تھے۔ اندازہ لگایئے اس شخص نے کس دیدہ دلیری کے ساتھ جیب سے کاغذ نکال کر لہرایا تھا کہ ہمیں یہ دھمکی بھیجی گئی ہے۔ تب ملک کا نام نہیں لیا گیا مگر دو تین دن بعد نام بھی لے دیا گیا کہ امریکہ نے دھمکی دی ہے۔ اور پھر اس جھوٹے دعوے پر یہ بیانیہ کھڑا کردیا گیا کہ پی ڈی ایم حکومت امپورٹڈ یعنی امریکہ کی پٹھو حکومت ہے۔ جو حکومت کھڑی ہی ایک جنرل کے وٹس ایپ پر ہو اسے گرانے لئے دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت حرکت میں آئے گی ؟ لومڑی کا شکار بھی کبھی توپ سے ہوا ہے؟

اوقات تو اس حکومت کی یہ تھی کہ ادھر وہ جنرل اپنے عہدے سےہٹائے گئے ادھر توشہ خان کا وہ گھروندا ڈھے گیا جسے وہ حکومت سمجھتے تھے۔ نظام الدین طوسی نے کہا تھا، اپنا قلمدان الٹ دوں تو بادشاہ کے تاج و تخت الٹ جائیں۔ شاید باجوہ صاحب بھی یہی دکھانا چاہتے تھے کہ اپنا ایک جنرل ہٹادوں تو رنگیلے شاہ کا پورا توشہ خانہ الٹ جائے !

عمران خان اور اعظم خان کی لیک ہونے والی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں “سازش” بنتے سنی جاسکتی ہے۔ یہ گفتگو ثابت کر رہی ہے کہ آگے چل کر عمران خان نے جو کاغذ اسلام آباد والے جلسے میں لہرایا تھا وہ درحقیقت اعظم خان کا ہی لکھا جھوٹ کا پلندہ تھا۔ مگر اس گفتگو کا جو پہلو سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہی ہے کہ سازش امریکہ نے نہیں کی تھی بلکہ عمران خان اور ان کا پرنسپل سیکریٹری پاکستان اور امریکہ دونوں کے خلاف سازش کر رہے تھے۔

ہمارا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ امریکی بدمعاشیوں کے نتیجے میں جو اینٹی امریکہ جذبات ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں وہ خوفناک حد تک یک نکاتی ہیں۔ اور وہ نکتہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کا دشمن ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کا ایک بے پناہ اہم پہلو اور بھی ہے جس سے مکمل صرف نظر کی روایت چلی آرہی ہے۔

وہ پہلو یہ ہے کہ دنیا کا ہر صنعتکار یا تاجر خوشحال یوں بنتا ہے کہ اس کا مال گاہک خریدتا ہے۔ جس صنعتکار کی پروڈکٹ مارکیٹ میں جگہ نہ بنا پائے اور اس کے پاس بیک اپ پلان نہ ہو تو ایسا صنعتکار دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ جس تاجر کو گاہک ہی کم ملیں تو اس کی آمدنی اس حد تک ناکافی ہوجاتی ہے کہ گھر کے خرچے نفع سے نہیں بلکہ دکان میں لگے سرمائے سے پورے ہونے شروع جاتے ہیں۔

یعنی جس رقم سے اس نے نیا تجارتی مال خریدنا تھا وہ رقم اس کے گھریلو اخراجات پر صرف ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ پہلے اس کی دکان کے شیلف خالی ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر جلد دکان ہی بند ہوجاتی ہے۔ ہر ملک کی طرح پاکستان بھی صنعت و تجارت کے شعبے رکھتا ہے۔ سو پاکستان کے لئے بھی گاہک سب سے اہم ہے۔ اگر گاہک ہوگا اور پاکستان صنعتکار کا مال خریدے گا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔ گاہک ناراض ہوا اور اس نے صرف اتنا ہی کر لیا کہ پاکستان کی بجائے کہیں اور سے مال خریدنا شروع کردیا تو پاکستان بھی فارغ ہوجائے گا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی مصنوعات کا دنیا میں سب سے بڑا گاہک امریکہ اور دوسرا بڑا گاہک یورپ ہے۔ اور پاکستان کے سب سے گھٹیا گاہک وہ 54 ممالک ہیں جو “برادر اسلامی” کہلاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے برے گاہکوں میں دوسرا نمبر اس کا ہے جس سے ہماری دوستی ہمالیہ سے زیادہ بلند، سمندر سے زیادہ گہری، اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ ذرا گوگل کرکے خود چیک کر لیجئے کہ ہمارے کارخانوں میں بننے والی مصنوعات یا زمین سے اگنے والی پیداوار میں سے 30 بتیس کروڑ آبادی والا امریکہ کتنا مال خرید رہا ہے اور ڈیڑھ ارب آبادی والا چین کتنا خرید رہا ہے۔

آپ کو سمجھنے میں دیر نہ لگے گی کہ ہماری معاشی ترقی کا تو انحصار ہی اس بات پر ہے کہ امریکہ نامی اپنے سب سے بڑے گاہک کو خود سے جوڑے رکھیں۔ اگر اس گاہک نے ہماری بجائے بھارت سے مال خریدنا شروع کردیا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ ہمارا حال بھی اس تاجر کا سا ہوگا جو دکان بیچ کر نوکری تلاش کرنی شروع کر دیتا ہے۔

سو عمران خان اور اعظم خان کی جو گفتگو لیک ہوئی ہے اس میں نظر یہ آرہا ہے کہ حکومت تو عمران خان کی پی ڈی ایم ختم کرنے جا رہی تھی اور یہ دونوں بیٹھے سازش پاکستان اور امریکہ کے خلاف کر رہے تھے۔ بھئی سازش ہی کرنی ہے تو زرداری، نواز شریف اور فضل الرحمن کے خلاف کیجئے۔ ملک کے خلاف کیوں کر رہے ہیں ؟ ذرا ایک لمحے کو تصور کیجئے، کیا امریکہ اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ وہ یہ موقف اختیار کرلے کہ عمران خان کو تو ہمارے متعلق کوئی غلط فہمی لاحق نہ ہوئی تھی۔ بلکہ ہمارے خلاف خان کا بیانیہ تو ان کی اور اعظم خان کی باقاعدہ سوچی سمجھی سازش تھی جس کا ثبوت بھی سامنے آگیا ہے، اور یہ سازش بُن بھی اس وقت کا وزیر اعظم پاکستان رہا تھا۔

لہذا ہم پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات تب تک روک رہے ہیں جب تک ان سازشیوں کے خلاف ایکشن نہ ہو ۔ کیا موقف درست نہ ہوگا ؟ 80 کی دہائی کے آخر میں ہماری اسٹیبلیشمنٹ نے محترمہ بینظیربھٹو شہید کو سیکیورٹی رسک قرار دیا تھا۔ خدا کی شان دیکھئے کہ تیس سال بعد وہی اسٹیبلیشمنٹ جس لاڈلے کو بڑا سجا سنوار کر لائی، وہی سیکیورٹی رسک ثابت ہوگیا۔ شاید خدا کی بے آواز لاٹھی اسی کو کہتے ہیں !

Related Posts