سعید غنی یامراد علی شاہ، ڈیسک خریداری میں اربوں کی کرپشن کا ذمہ دار کون؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پیپلزپارٹی اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ مختلف اسکینڈلز کا شکار رہی ہے،ماضی میں پیپلزپارٹی کی وفاق میں حکومت کو بھی کرپشن کے الزامات کی وجہ سے برطرف کیا گیا جبکہ سندھ میں موجود پی پی حکومت کے کرپشن اسکینڈلز اور تنازعات آئے روز میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔حال ہی میں اسکول ڈیسک کی خریداری کے معاملے میں 3 ارب سے زائد کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے ۔سندھ میں ایک طرف تو تعلیم زبوں حالی کا شکار ہےاورہزاروں اسکول بند کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف اربوں روپے کی کرپشن کا معاملہ سامنے آگیا۔ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ سندھ حکومت کے وزراء گھپلے تو تسلیم کررہے ہیں لیکن ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں۔

کرپشن اسکینڈل
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے وزیراعلیٰ سندھ سے اس شکایت کے ساتھ رابطہ کیا ہے کہ صوبائی محکمہ تعلیم نے مبینہ طور پر 320 فیصد زیادہ قیمت پر سرکاری اسکولز کے لیے ڈیسک خریدے ہیں جس سے حکومتی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔

سندھ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ نے 10 جون 2021 کو ڈوئل ڈیسک کی فراہمی اور ترسیل کے لیے چار ٹھیکے دیئے تھے جن کی مالیت 5 ارب روپے بنتی ہے۔ ایک ڈوئل ڈیسک کی قیمت 23 ہزار 985 سے لے کر 29 ہزار 500 روپے تمام ٹیکسز سمیت بنتی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنے خط میں انکشاف کیا ہے کہ ٹینڈرز کے لیے مختلف کمپنیوں کی جانب سے بولی دی گئی تھی جس میں سب سے کم بولی کی قیمت 5 ہزار 700 روپے سے لے کر 6 ہزار 860 روپے فی ڈیسک دی گئی تھی جس میں تمام ٹیکسز بھی شامل تھے۔ تاہم اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ٹھیکہ منسوخ کردیا تھا۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کاکہنا ہے کہ 5 ہزار 700 روپے اور 23 ہزار 985 فی ڈیسک کے درمیان قیمتوں کے فرق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ موجودہ ٹینڈرز 320فیصد زیادہ قیمتوں پر دیئے گئے ہیں جس سے ایک اندازے کے مطابق سرکاری خزانے کو تقریباً 3 ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

اپوزیشن کا مؤقف
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کاکہنا ہے کہ میں نے اسمبلی کے اجلاس میں وزیرتعلیم سے ڈیسک سے متعلق پوچھا لیکن وزیرتعلیم نے سمجھا شاید میں نے گھر کا حساب مانگ لیاہے۔وزیرتعلیم نے سوال کو اہمیت نہیں دی ، یہ ہم ٹیکس ادا کرنے والوں کا پیسہ ہے،حلیم عادل شیخ نے کہا کہ 10 ہزار اسکول بند کیے جارہے ہیںاورساڑھے3 فٹ والی ڈیسک سندھ حکومت 23 ہزار کی لے رہی ہے، 6 فٹ کی ڈیسک 29 ہزار میں خرید رہے ہیں ، ، 3 ارب کا ٹیکہ مراد علی شاہ نے سعید غنی سے لگوایا ۔

حکومت کا جواب
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کاکہنا ہے کہ اگست سے فروری تک وزارت تعلیم کاقلمدان وزیر اعلیٰ کے پاس تھا اور میرے وزیر تعلیم بننے سے پہلے ٹینڈر ہوا تھا۔میڈیا پر آیا کہ سندھ میں محکمہ تعلیم نے فرنیچر کی خریداری میں کئی ارب کا ٹیکہ لگایا، اسکول فرنیچر کی خریداری میں کئی اہم لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی، آئی بی اے سکھر سمیت مختلف اداروں کے سربراہان کو کمیٹی کا ممبر بنایا گیا۔ اس کمیٹی نے 2018 میں کام شروع کیا تھا، جو بولیاں ان کے پاس آئیں ،کمیٹی نے ان کو مسترد کردیا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے جو اندازہ لگایا تھا اس حساب سے بولیاں انتہائی کم آئیں، اس سارے معاملے پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو خط لکھا گیا۔

کمیٹی نے ٹینڈرز منسوخ کیے اور 2019 میں ایک بار پھر ٹینڈرز دیئے۔ سعید غنی کے بیان کے مطابق ان کے دور میں بڑی کمپنیز نے بولیاں لگائیں، اس وقت بینچوں کی بولی 21 سے 26 ہزار کے درمیان آئی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پروکیورمنٹ کمیٹی نے سیپرا کے بنیادی اصول کو اپنایاجس کے رول کے مطابق اچھا سامان خریدنا ضروری ہے۔ پروکیورمنٹ کمیٹی نے اے ون گریڈ کی شیشم کی لکڑی کا استعمال کرنے کا کہا۔ انہوں نے کہا کہ ایک صاحب اس حوالے سے کورٹ میں چلے گئے، کورٹ نے جو آرڈر دیا وہ محکمے کو نہیں پہنچایا۔

ذمہ دارکون
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے اگرچہ مہنگے فرنیچر کی خریداری کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ سندھ پر ڈال دی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ فرنیچر خریداری سے متعلق ٹینڈر دستاویزات سعید غنی کے دور میں بنائے گئے اورسعید غنی کے دور میں مورخہ 16مارچ 2021 کو ٹینڈر اخبار میں شائع ہوا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ بولیوں سے متعلق دستاویزات سے لے کر آج تک کہیں بھی محکمہ اسکول ایجوکیشن میں اسکولوں کے نام نہیں اور سپلائرز کے بار بار اصرار کے باوجود بھی ٹینڈر دستاویزات میں اسکولوں کے نام نہیں لکھے گئے جس سے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ فرنیچر آیا بھی یا نہیں۔
سابق وزیرتعلیم سعید غنی اور موجودہ وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے گزشتہ روز مہنگے داموں ڈیسک خریدنے کی خبروں کی تصدیق کردی ہے لیکن سعید غنی نے ذمہ داری لینے کے بجائے معاملہ مراد علی شاہ پر ڈال دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مراد علی شاہ مہنگے داموں فرنیچر خریدنے کی غلطی تسلیم کرکے قوم کا پیسہ واپس لائینگے یا عوام کے ٹیکس کا پیسہ وزراء کی کرپشن اور بے حسی کی نذر ہوجائیگا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟

Related Posts