مستقبل کی آمریت کے متوقع نتائج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جمہوریت اور آمریت حکومت کے دو مختلف طریقوں کے نام ہیں جن میں فرق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھنے کی بجائے حیرت انگیز طور پر کم ہوتا جارہا ہے، کم از کم پاکستان کی حد تک یہ ایک تلخ حقیقت کے سوا کچھ نہیں۔

آمریت کیا ہوتی ہے؟ کوئی بھی فوجی، مثلاً پاکستان کی صورت میں عموماً آرمی چیف جمہوری حکومت کو پسِ پشت ڈال کر خود حکمران بن بیٹھتا ہے اور اس دوران ملک کی سیاسی قیادت گوشۂ گمنامی میں چلی جاتی ہے۔

آمر مختلف مطلق العنان قسم کے فیصلے کرتا ہے اور اپنی مرضی کی پالیسیاں پورے ملک کے کروڑوں عوام پر مسلط کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جو کچھ اس نے کہا، اُسے حرفِ آخر سمجھا جائے، باالفاظِ دیگر آمر کچھ بھی کرسکتا ہے جو ملک کے مفادات کو زیادہ تر نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔

دوسری جانب جمہوریت میں عوام کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، تاہم گزشتہ 75 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا بلکہ اسے مختلف طریقوں اور حیلوں بہانوں سے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا جو آمریت ہی کی ایک قسم قرار دی جاسکتی ہے۔

فرض کریں کہ اگر 2023 میں بھی آمریت ہی پاکستان پر نافذ ہوئی تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کیونکہ متعدد ماہرینِ عمرانیات کا ماننا ہے کہ ملک کے موجودہ سیٹ اپ میں جمہوریت آخری سانسیں لیتی نظر آرہی ہے۔

دراصل آمریت کے طرزِ حکومت کے تحت پاکستان میں سیاسی اپوزیشن کو دبانا، شہری آزادیوں اور قانون کی بالادستی پر پابندیاں عائد کرنا اور آزادانہ و غیر منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں لیت و لعل سے کام لینا اہم قرار دیا جاتا ہے اور موجودہ حکومت کا طور طریقہ بظاہر جمہوری ہونے کے باوصف اسی سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔

تشویشناک طور پر آمریت ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے کیونکہ غیر مستحکم سیاسی صورتحال سے بھرپور ملک میں کون سا غیر ملکی یا ملکی سرمایہ کار اپنا پیسہ برباد کرنا چاہے گا؟ جمہوری اصلاحات اور آزاد منڈی کی معیشت کی طرف بھی پیشرفت کم ہوجائے گی۔

آئندہ طرزِ حکومت آمرانہ ہونے کی صورت میں معاشی عدم استحکام بڑھ جانے کا خدشہ ہے جبکہ ہمارا ملک پہلے ہی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہورہا ہے، بعض ماہرینِ معیشت نے تو اس حد تک بھی کہہ دیا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کی طرف جارہا ہے، تاہم جب تک حکومت تصدیق نہ کردے، راقم الحروف ایسے کسی بیان کو اہمیت نہیں دے سکتا۔

دوسری جانب آمرانہ حکومت آزادئ اظہار، پریس اور جلسے جلوس جیسی شہری آزادیوں کو دبانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ لوگ عوامی گفتگو میں حصہ تک نہیں لے سکتے۔ اگر کہیں بھی کچھ لوگ اکٹھے ہو کر بات چیت کرنے لگتے ہیں اور اگر وہ سیاسی ہوتی ہے تو آمرانہ حکومت ان پر قدغن لگا کر انہیں گرفتار تک کرسکتی ہے۔

سخت سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ ملکی آئین معطل کیا جاسکتا ہے جس سے ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہونے جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ آئین معطلی کی سزا خود آئینِ پاکستان میں موت ہے۔ آزادئ اظہار پر پابندی سے عوامی گفتگو کا معیار گر جائے گا۔

معاشرے کی ترقی رک جائے گی۔ مخالف سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو دبانے سے عوامی حلقوں میں مختلف نظریات پنپ نہیں سکیں گے اور صرف ایک ہی نظرئیے کی اجارہ داری ہوگی جو آمرانہ حکومت کا نظریہ ہوگا۔

آمریت کی واپسی خطے کے امن و استحکام اور سلامتی پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔ سیاسی مخالفت اور شہری آزادیوں کو دبانے سے شہروں میں بد امنی اور سماجی عدم استحکام بڑھ سکتا ہے اور سکیورٹی صورتحال کی یہ سنگینی پڑوسی ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے جس سے علاقائی امن و استحکام کو مزید خطرات ہوسکتے ہیں۔

تکلیف دہ طور پر پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع ملنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اربابِ اقتدار سر جوڑ کر کم از کم اس معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا کریں کہ جمہوریت کو پنپنے دیا جائے اور آزادئ اظہار سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

Related Posts