کالعدم ٹی ایل پی کی پابندی ہٹانے کی درخواست اور حکومت کا مثبت ردِ عمل، آگے کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Federal Cabinet retains ban on TLP

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کالعدم ٹی ایل پی نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ہم پر عائد پابندی ہٹائی جائے جس پر حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر مثبت ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔

وزارتِ داخلہ میں ٹی ایل پی کی درخواست پر غور کیا جائے گا، تاہم حکومت یا ٹی ایل پی کی جانب سے تاحال درخواست دئیے جانے کی تصدیق یا غور کیے جانے کی تردید سمیت کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

آئیے ٹی ایل پی پر لگائی گئی پابندی اور اس حوالے سے دیگر متعلقہ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا کیا جواز تھا اور اگر اب یہ پابندی ہٹائی جائے گی تواس جواز کا کیا ہوگا؟ 

مولانا خادم حسین رضوی اور ٹی ایل پی

مذہبی و سیاسی رہنما مولانا خادم حسین رضوی نے تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کے نام سے ایک سیاسی جماعت 26 جولائی 2017ء کے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹر کروائی جسے کرین کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا۔

قبل ازیں معروف عالمِ دین مولانا خادم حسین رضوی کوئی سیاسی پس منظر نہیں رکھتے تھے۔ بعد ازاں پارٹی کی قیادت ان کے صاحبزادے سعد حسین رضوی نے سنبھال لی۔ آج سے 15 روز قبل 14 اپریل کے روز حکومت نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997، رول نمبر 11 کے تحت ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دے دیا۔

دہشت گردی اور ٹی ایل پی 

شدت پسندی اعمال کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر میں بھی اپنا رنگ دکھا کر رہتی ہے۔ ٹی ایل پی کے نظریات سے متاثر ایک شخص کو 8 مارچ 2021ء کے روز گرفتار کیا گیا جس نے اسلام آباد میں ایس پی سٹی کے دفتر کے باہر ایک پولیس اہلکار سے بندوق چھین لی تھی۔

مذکورہ شخص نے نہ صرف بندوق چھین لی بلکہ تقریباً 4 فائر کرکے خوف و ہراس بھی پھیلایا۔ ایس پی کے دفتر سے ڈپلومیٹک انکلیو ملحق ہے جس میں داخل ہوکر یہ شخص فرانسیسی سفارت خانے پر حملہ آور ہونے کا خواہش مند تھا۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق سرگودھا کا رہائشی یہ منصور نامی شخص بسوں پر سفر کرکے وفاقی دارالحکومت پہنچ گیا جو فرانسیسی سفارت خانے سے توہینِ رسالت کا بدلہ لینے کیلئے حملہ کرنے والا تھا۔ گرفتاری کے بعد ابتدائی تحقیقات سے نئے انکشافات سامنے آئے۔

فرانسیسی سفارت خانے پر حملے کا خواہش مند منصور ٹی ایل پی کی طرف سے صوبے میں قائم ماحول سے متاثر رہا جس پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا جس سے برطانوی میڈیا نے یہ بات اخذ کی کہ کالعدم ٹی ایل پی مذہب کے نام پر پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔ 

ٹی ایل پی کا قیام اور ابتدائی اقدامات 

پاکستان میں 29 فروری 2016ء کو ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا دے دی گئی جس کے بعد 30 فروری کو راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں نمازِ جنازہ کا کثیر عوامی اجتماع ٹی ایل پی کے قیام کا شاخسانہ بن گیا۔

سن 2017ء میں ٹی ایل پی نے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے ضمنی انتخاب لڑا جس سے پتہ چلا کہ ٹی ایل پی کا اچھا خاصا ووٹ بینک موجود ہے۔ اس انتخاب میں تیسری جبکہ این اے 4 کی نشست پر ضمنی انتخاب میں ٹی ایل پی کی 5ویں پوزیشن رہی۔

پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین جب نااہل ہوئے تو ٹی ایل پی نے این اے 154 پر بھی ضمنی انتخاب لڑا اور 12 فروری 2018ء کے روز تیسری پوزیشن لے اڑی۔ 

فرانس کا بائیکاٹ اور ٹی ایل پی کا دہشت گردی سے تعلق

دنیائے اسلام میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا اور فرانس سے تمام تر تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ فرانس میں گستاخانہ خاکے ایک بار پھر شائع ہوئے تھے جس پر عالمِ اسلام میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔

تاحال ٹی ایل پی کے بانی خادم رضوی اور جانشین سعد رضوی کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ پر الزام ہے کہ وہ ٹی ایل پی کو حکومتِ وقت کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ 

سعد رضوی کی گرفتاری اور پابندی 

رواں ماہ 12 اپریل 2021ء کے روز مولانا سعد حسین رضوی کو گرفتار کیا گیا۔ آئی جی پنجاب کو گرفتاری سے متعلق ہدایت جاری کردی گئی۔ جب سعد رضوی گرفتار ہوئے تو سب سے زیادہ احتجاج لاہور میں ہوا۔

کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت متعدد شہروں میں احتجاج ہوا، پہیہ جام ہڑتال کی گئی اور سڑکیں اور راستے بند کرکے عوام کی زندگی مشکل بنائی گئی۔ کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔

بعد ازاں 14 اپریل کے روز ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے کا اعلان ہوا اور 15 اپریل کو پابندی کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا تھا۔ ٹی ایل پی پر الزام ہے کہ اس نے دہشت گردی کی تاہم تحریکِ لبیک نے فرقہ واریت کی بنیاد پر کبھی قتل، دھماکے یا خودکش حملے کیے ہوں، ایسا کوئی الزام تاحال عائد نہیں کیا گیا۔ 

تحریکِ لبیک کا حقیقی قصور

حقیقت یہ ہے جو سابق آئی جی اسلام آبا طاہر عالم نے کہی کہ ٹی ایل پی کوئی دہشت گرد جماعت نہیں ہے جس کے نزدیک دیگر فرقوں کا قتلِ عام جائز ہوچکا ہو یا اس کا کوئی عالمی ایجنڈا ہو جس کے تحت یہ دیگر ممالک کا اثر پاکستان پر ڈالنا چاہتی ہو۔

سابق آئی جی اسلام آباد کے مطابق ٹی ایل پی عشقِ رسول ﷺ کیلئے جدوجہد میں تشدد کا عنصر شامل کربیٹھی ہے۔ یہ لوگ رینجرز یا فوج کی بجائے پولیس کو حملوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت یہ بھی دہشت گردی ہی کی ایک قسم ہے۔ 

پابندی ہٹانے کا فیصلہ

تاحال حکومت نے ٹی ایل پی پر عائد پابندی ختم نہیں کی تاہم باوثوق ذرائع کے مطابق کل وزارتِ داخلہ میں ایک اہم اجلاس ہوگا جس میں پابندی ہٹائے جانے پر غور کیا جائے گا۔ 

توجہ طلب بات یہ ہے کہ ٹی ایل پی پر عائد پابندی اگر بغیر اصلاحات کیے ہٹا دی گئی تو ٹی ایل پی آگے چل کر بھی فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے سمیت دیگر ایسے ہی مطالبات پر ملک گیر ہڑتال کرسکتی ہے جس میں متوقع پرتشدد واقعات نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔

دوسری جانب اگر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تو تحریکِ لبیک کے حمایتی حقیقی عاشقانِ رسول ﷺ کے جذبے کو دہشت گردی سمجھ لیا جائے گا جو کسی صورت بھی درست نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹی ایل پی کو درست سمت دی جائے اور اصلاحِ احوال کے بعد ہی اس جماعت سے پابندی ہٹائی جائے۔ 

Related Posts