ہمارے معاشرے میں طلاق کے مسائل اور ان کا شرعی حل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارے معاشرے میں طلاق کے مسائل اور ان کا شرعی حل
ہمارے معاشرے میں طلاق کے مسائل اور ان کا شرعی حل

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دین اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رکھیں اور ایک اچھی اور صحت مند زندگی گزاریں، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہوتا ہے کہ جہاں دو میاں بیوی اچھی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، وہیں میاں بیوی کے درمیان کچھ باتیں ایسے بھی ہوجاتی ہیں کہ بات علیحدگی (طلاق) کی طرف چلی جاتی ہے، طلاق ایک ایسا عمل ہے جو کو اللہ تعالیٰ نے جائز تو قرار دیا ہے مگر اس کو پسند نہیں کیا۔

طلاق جائز مگر نا پسندیدہ عمل ہے، آج ہم اس موضوع پر بات کریں گے کہ آیا طلاق کی نوبت کیوں پیش آتی ہے؟ طلاق کس طرح دینی چاہئے؟اور شریعت نے ایسے کیا آپشن دیئے کہ طلاق دیئے بغیر معاملات کو سلجھایا جاسکے اور اس کا حل نکالاجاسکے، آج ہم بات کریں گے مفتی سید حسنین شاہ سے اور ان سے اس حوالے سے رہنمائی حاصل کریں گے۔

ایم ایم نیوز: مغربی معاشرے کے بعد اب ہمارے معاشرے میں بھی طلاق کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اس کی کیا وجوہات ہیں؟

مفتی سید حسنین شاہ: ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح میں اضافے کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں آپس میں پیار و محبت اور آپس میں خاندانوں میں پیار و محبت ختم ہوچکا ہے، جبکہ جب ایک عورت نکاح میں آتی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ وہ مرد کی اتباع میں اپنی زندگی گزارے، مرد کے ساتھ وہ ایسے رویے سے پیش آئے کہ مرد کے لئے وہ سکون کا ذریعہ بنے۔

قرآن مجید میں ہے کہ عورتیں مرد کا لباس ہیں اور مرد عورتوں کا لباس، یہ فطرتی بات ہے کہ جب کوئی عورت ایسی ہو جو اپنے شوہر کو خوشی دیتی ہے تو گھر خوشی سے چلتے ہیں، سب سے بڑی کمی وہ یہ کہ آج کل کے معاشرے میں ایک عورت اپنے شوہر کو محبت دینے کے لئے تیار نہیں اور مرد اپنی بیوی کو محبت دینے کے لئے تیار نہیں۔ اگر عورت محبت دے رہی تو وہ کہیں اور مرد اگر کہیں محبت دے رہا ہے تو وہ کہیں اور، اگر مرد اور عورتیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور محبت کو فروغ دیں تو اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جب مرد اور عورت شادی کے خوبصورت بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو وہ اپنے دیگر معاملات کسی اور کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتے۔ انہیں آپس میں مل کر ایک ساتھ رہنا ہے، عورت کا جسم مرد کے پاس ایک امانت ہے اور مرد کا جسم عورت کے پاس ایک امانت ہے، لفظ نکاح کے بعد عورت مرد کے لئے حلال ہوجاتی ہے، مرد اور عورت اگر ایک دوسرے کے حقوق کو سمجھیں تو طلاق کے معاملات میں یقینا کمی آجائے گی۔

ایم ایم نیوز: ترجیحات بدل رہی ہیں ایک دوسرے کی سوچ بدل رہی ہے، اس کے بعد بھی اگر معاملات نہیں بن رہے تو اب میاں بیوی کیاں کریں؟

مفتی سید حسنین شاہ: اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ نے شادی کے بعد اپنی زندگی آخر تک ایک ساتھ گزارنی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”یہی بیوی جو مردکے نکاح میں ہے جنت میں تمام حوروں کی سردار ہوگی“ اسلام نے عورت کے رشتے کو جنت تک قائم کیا ہے/

پہلی بات تو یہ ہے کہ جھگڑا ہونا ہی نہیں چاہئے، آپ میں پیار، محبت اور اُلفت سے رہنا چاہئے۔اگر اس کے باوجود بھی معاملات نہیں بن رہے تو سب سے پہلا طریقہ افہام و تفہیم کے ذریعے اس بات کو کنٹرول کیا جائے، دوسرا یہ کہ کوئی ثالث بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرے، یا دونوں خاندان دونوں کے درمیان رضا مندی کا راستہ تلاش کریں۔

ایم ایم نیوز: آج کل لوگ غصے میں آکر طلاع دے دیتے ہیں، اس بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟

مفتی سید حسنین شاہ: شریعت میں اس حوالے ممانعت ہے، مگر ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی بات نہیں بن رہی تو شریعت کہتی ہے کہ جس طرح پہلے نکاح ہوا تھا، اسی طری شریعت نے طلاق کی صورت بھی دی ہے، طلاق کا راستہ بھی دیا ہے، عورت مرد کے نکاح سے آزاد ہوجائے اور مرد عورت کے نکاح سے آزاد ہوجائے، اس کے لئے شریعت نے ایک راستہ دیا ہے، اسلام میں طلاق کا راستہ آپ کے پاس ہے۔

ایم ایم نیوز: طلاق دینے کا طریقہ کیا ہے،اس کے طریقے کے حوالے سے روشنی ڈالئے گا؟

مفتی سید حسنین شاہ: پہلی بات تو یہ طلاع دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نا پسندیدہ عمل ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”جو عورت بھی طلاق دیگی وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گی“ لیکن اگر طلاق دیں تو اس حساب سے دیں کہ شاید ہو سکتا ہے کہ دوبارہ واپسی کی راہ ممکن ہوسکے، طلاق کی تین سورتیں ہیں، پہلی طلاق سنت یہ ہے کہ آپ ایک بار بول دیں کہ میں طلاق دیتا ہو۔

پھر اس کے بعد عدت عورت گزارے، خیال رہے کہ طلاق پاکی کے ایام میں دی گئی ہو، اس کے بعد عورت تین ”مینسز“ گزارے، اب یہ عورت مرد سے الگ ہوجائے گی، عدت گزرنے کے بعد اگر مرد عورت ایک دوسرے سے راضی ہوچکے ہیں، تو انہیں چاہئے وہ دوبارہ نکاح کریں، اس معاملے میں حلالہ نہیں ہوگا۔یہ وہ طریقہ جس کو شریعت نے پسند کیا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر مہینے پاکی کے ایام میں ایک طلاق دی جائے۔ اسی طرح دوسرے مہینے میں پاکی کے ایام میں طلاق دی، پھر تیسرے مہینے میں اسی طرح کیا۔ شریعت کہہ رہی ہے کہ اس طرح الگ الگ طلاق دیں۔ اگر کوئی مرد اکٹھی تینوں طلاقیں دے دے تو تب بھی یہ عورت اس مرد کے لئے حرام ہوجائے گی۔

ایم ایم نیوز: بعض لوگ اس آپشن پر جاتے ہیں کہ تم اس عورت سے شادی کرلو اور اتنے دنوں بعد طلاق دیدینا؟ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

مفتی سید حسنین شاہ: شریعت نے اس کو بالکل ناجائز اور حرام کہا ہے، یہ فکس نکاح ہوجا تا ہے اور نکاح فکس نہیں کیا جاسکتا، فکس نکاح کو شریعت نے پسند نہیں کیا، فکس طلاق کی شریعت میں ممانعت ہے۔

ایم ایم نیوز: کچھ لوگ تین طلاقیں دینے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ شاید طلاق نہیں ہوئی ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

مفتی سید حسنین شاہ: اگر کوئی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو طلاق ہوجاتی ہے، اس پر بہت دلائل ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، دو طلاقیں اگر کسی نے دے دیں تو وہ ہوجاتی ہیں، اور کسی نے تین طلاقیں دے دیں تو اب عورت مرد کے لئے حلال نہیں، تین طلاقیں اگر کوئی اکٹھی دے دیتا ہے تو تینوں ہوجاتی ہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اس طرح کوئی اگر تین طلاقیں دے تو طلاقیں ہوجاتی ہیں۔

ایم ایم نیوز: اگر طلاق ہوجاتی ہے، مال کا بٹوارا کس طرح سے ہوگا؟

مفتی سید حسنین شاہ: نکاح کے موقع پر جو کچھ آپ نے عورت کو حق مہر میں دیا تھا وہ سب کچھ عورت کا ہے، جو کچھ تحفہ میں دیا تھا، اس کی مالکہ بھی عورت ہے، اور کوئی مال آپ نے دیا تھا اور عورت کو اس کا مالک بنا دیا تھا، تو وہ بھی عورت کا ہے، باقی اگر اس طرح کا کچھ لین نہیں ہوا ہے تو جو کچھ عورت کی ملکیت ہے وہ اسی کی ملکیت رہے گا اور جو مرد کی ملکیت ہے وہ مرد کی ملکیت رہے گا۔

Related Posts