آزادئ اظہار پر قدغن

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کسی بھی جمہوری معاشرے میں پریس کی آزادی بنیادی حق  ہوا کرتی ہے ۔ تاہم، اطلاعاتی افراتفری اور میڈیا  کی جانبداری کی وجہ سے معاشروں اور ممالک کے درمیان تقسیم پیدا ہونے کے باعث دنیا بھر کے ممالک میں آزادی  صحافت  میں کمی آ رہی ہے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے جاری کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا 2022 ایڈیشن خبروں اور معلومات کے انتشار کے تباہ کن اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ بگڑتی ہوئی صورتحال کے لیے “عالمی سطح پر اور غیر منظم آن لائن معلومات کی جگہ جو جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے” کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اس سے جمہوری ممالک کمزور ہوتے ہیں اور غاصب حکومتوں کو اپنے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

ایک ریکارڈ 28 ممالک کو صحافت کے لیے “بہت خراب” کا درجہ دیا گیا ہے کیونکہ روس، چین اور سعودی عرب جیسے ممالک میں اربوں لوگ بغیر سنسر شپ کے صحافت تک رسائی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور رپورٹرز کو اپنی زندگیوں کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ جمہوری معاشروں میں بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے سماجی اور سیاسی تناؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان 12 درجے تنزلی کے ساتھ 180 ممالک میں سے 157ویں  نمبر پر آگیا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان اس فہرست میں 145ویں نمبر پر تھا۔ صورت حال اس قدر خراب ہے کہ پاکستان اب  جنگ زدہ افغانستان کی درجہ بندی  سے بھی نیچے آ گیا جہاں گزشتہ سال طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کی سابقہ ​​حکومت کو ملک میں صحافتی آزادی میں کمی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس نے نہ صرف انہیں ’پریس فریڈم پریڈیٹر‘ کا شرمناک خطاب دیا بلکہ جمہوریت کو بھی بری طرح سے  متاثر کیا۔

امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ آزادی  اظہار پر پابندیاں پاکستان کے امیج اور اس کی ترقی کی صلاحیت کو مجروح کرتی ہیں۔ میڈیا آؤٹ لیٹس اور سول سوسائٹی پر عائد پابندیوں پر تشویش بڑھ رہی ہے جس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے  پاکستان اب بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو جرائم اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنے یا حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی جرات کرتے ہیں۔

یہ تشویشناک بات ہے کہ پاکستان ایک سال میں 12 درجے نیچے چلا گیا۔ پچھلی حکومت نے تباہ کن پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی  (پی ایم ڈی اے) تشکیل دے کر میڈیا کنٹرول کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ اس نے سخت  پیکا آرڈیننس بھی پاس کیا جس نے ریاستی اداروں پر تنقید کو جرم قرار دیا۔ یہ ملک میں صحافت کی گرتی ہوئی آزادی کے ذمہ دار عناصر تھے۔

کمزور ہوتی صحافتی آزادی شہریوں کو بے خبر اور اپنی حکومت کا احتساب کرنے سے محروم کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت میڈیا کے ساتھ آمرانہ رویہ ترک کرے اور صحافت کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔ اس سے ہمیں ایک جمہوری اور ترقی پسند معاشرہ بنانے میں مدد ملے گی۔